Wednesday, December 5, 2012

آجُومانی


آجُو مانی 

" کل دوپہر جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر کچن سے نکلا ہی تھا ، کہ ایک کورین آجومانی [ معمر 
عورت] سے واسطہ پڑ گیا۔۔۔ برف اب بھی پورے زوروشور سے پڑ رہی تھی اور ہوا پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس حملہ آور ہو رہی تھی۔۔ ہم ہاسٹل سے چھتری لینے جا رہے تھے۔۔میں اور مرا دوست ، جس کی زندگی کی پہلی برفباری تھی، موسم سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور تصاویر بنانے میں مگن تھے، کہ اس آجومانی کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔
" نل شی گا 좋아 چھُوا یو؟"


"Thanks to God is the best delight."
جس کا مطلب ہے  موسم تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟
مگر میں سمجھاکہ وہ کہہ رہی ہے۔۔۔۔
" نل شی کا چھُو  (추위) آیو۔۔؟" جس کا مطلب ہے کہ کیا موسم بہت سرد ہے؟ "
ملتان کا باسی منفی دس پر کیا کہہ سکتا ہے، جھٹ سے کہہ دیا۔۔۔
" نے۔۔ آجو چھُو آیو۔۔۔۔۔۔ ہاں بہت ٹھنڈا ہے۔۔۔
کدال سے راستہ بناتی آجومانی سمجھی کہ میں کہہ رہا ہوں بہت اچھا ہے۔۔اور اس کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔۔۔اور اس نے منہ بسورتے ہوا کہا۔۔۔۔"آجومانی شیرو ہئیو ، مانی ہمدرائیو [ مجھے بہت برا لگ رہا ہے، بہت تھک گئی ہوں کام کرتے کرتے"۔۔۔۔
"When we sit inside warm, there can be someone dying cold" [A.B. Saim]
میں سمجھ گیا کہ وہ ٹھنڈے کا نہیں۔ اچھے یا برے کا پوچھ رہی تھی۔۔ مگر ساتھ ہی میں ایک اور حقیقت بھی سمجھ آئی زندگی کی۔۔۔۔ وہ یہ کہ ظاہرا یا عموما جو موسم یا مظہر خوشی کا استعارہ بنا لیا جاتا ہے، وہ سب کے لئے ویسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ برفیلے پہاڑوں پر لوگ ہنی مون منانے جاتے ہیں، جب کی سردی سے تنگ وہاں کے باسی دیہاڑیاں لگانے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔۔ بارش میں منچلے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جبکہ ٹھیلوں والے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے زیرِتعمیر پلوں کے نیچے جا کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔ کسان ہاتھ اٹھا اٹھا کر بارش مانگتا ہے اور مزدور دیہاڑی کے خوف سے بادلوں کو کوستا رہتا ہے۔۔۔۔ پختہ عمارتیں موسموں میں اپنے رنگوں کو نہلاتی ہیں ، جبکہ کچے مکان اپنی بنیادوں کے لرزنے سے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔۔۔ 
مظاہرِ فطرت اپنے طے کردہ دائروں میں متحرک رہتے ہیں،  اور انسان اپنی ذات اور صفات کے زیرِاثر ان سے محظوظ یا خائف رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی دن کے اجالوں سے زندگی کا سورج تراشتا ہے اور کوئی رات کے اندھیروں میں دیپ جلا کر روح کا چاند روشن کرتا ہے۔۔۔کسی کو بہاروں میں چہچہاتے پرندے سکون دیتے ہیں اور کسی کو خزاں رسیدہ پتوں میں زندگی کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔ کہیں برف کی پھسلتی ہوئی سانسوں میں خوشی اپنا رنگ جماتی ہے اور کہیں سورج کی ایک کرن سمیٹنے کے لئے آنکھیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


خدا نے جہاں مظاہرِ فطرت کو کثیرالنوع بنایا ، وہیں انسان، حیوان اور چرند و پرند
 کو طرح طرح کی خوش طبعی نواز دی۔۔۔۔ پرندوں کی مثال لے لیجئے ، تلور، لالیاں، بٹیر  پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقوں کا وہ حسن ہیں جو غول در غول گرمیوں کا تہوار منانے نکل آتے ہیں۔ جبکہ مرغابیاں انہیں علاقوں میں موسمِ سرما سے پہلے نظر بھی نہیں آتیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ، کہ سردی کا عشق ہے ان کی ذات میں ، جبکہ وہ بے چاریاں تو سربیا کی 
سردی سے تنگ آ کر یہاں پناہ لئے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
"Drive your life happily but not crazily. "    [[A.B. Saim]]

انسان اور حیوان میں بس یہِی فرق ہے۔۔۔۔محسوسات کا فرق۔۔۔ انسان اس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں ، جب تک اس کا علم اور عمل موسموں اور لمحاتی کیفیتوں سے آذاد ہو کر حقیقت کے رازوں سے آشنائی نہیں اختیار کر لیتا۔۔۔۔ عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا اس کی بڑی شرطیں ہیں۔۔۔۔۔ جو خدا کو نہیں مانتے وہ بھی عیش اور طیش میں خدائی اور اس کے اندر کے موسموں کا ادراک کر پائیں تو انسان کی تعریف پر صادق ہیں۔۔ وگرنہ خدا پر ایمان بھی ایک جزو ہے اس کے رازوں کا، کُل نہیں۔۔۔۔۔۔
انسان میں یہ سلیقہ ہونا چاہیئے کہ وہ برف پڑتی دیکھ کر چڑیوں کے گھونسلے کا بھی سوچے اور بارش کے بادل چڑھتے دیکھ کر اسے بھوکے مزدور کا خیال گھیرے۔۔۔۔گرمیاں آنے سے قبل اسے اے سی کی گیس ری فلنگ کا خیال آئے مگر اس سے پہلے آفس کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار کا خیال آنا چاہیئے جس کا سر دھوپ سے بھی زیادہ سفید ہو چکا ہو۔۔۔۔سردیوں میں گرم گرم جلیبیوں کا سن کر منہ میں پانی آنا چاہیئے، مگر جلیبیوں والے کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں بھی سردی کے معنی تلاش کرنے چاہیئں۔۔۔ 
بارش میں کوٹھی کے پینٹ کے متاثر ہونے کا خیال بھی درست ہے، مگر سرونٹ کوارٹر کی سالوں پرانی چھت کے ٹپکنے کا اندیشہ بھی تو ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ عید پر بچوں کو نئے کپڑے، کھلونے اور غبارے لے کر دینے کی تو کیا ہی بات ہے، مگر اولڈ ہوم میں پڑے بوڑھے لاوارثوں کو عید ملنے بھی تو جانا چاہیئے، ۱۴ اگست کو سائلنسر اتار کر سڑکوں پر نکل بھی آئیں تو، کم سے کم اسپتال کے پاس تو ریس نہیں دینی چاہیئے، ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی انسانیت ہے ، کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کے غم کا احساس رہ جائے۔۔ اپنی آسانیوں میں دوسروں کی تکالیف کا کم سے کم خیال ہی آجائے تو ہم انسان کہلانے کے حق دار ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ برسات کی شاموں میں مینڈک بھی ٹرٹراتے ہیں اور بارش کے بعد لاکھوں ٹِڈیاں بھی خوشی میں لہراتی پھرتی ہیں۔۔۔۔مگر وہ اشرف المخوقات نہیں کہلاتے، حیوان ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔"

[[ مضمون از برف برف چہرے: عبدالباسط صائم]]

Monday, October 29, 2012

طفل سنی

طفل سنی


Writer: AB Saim
کہتے ہیں زندگی سب سے بڑی استاد ہے ، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو شخص بے استاد ہو ، زندگی کی ڈگر پر چلنا وہ بھی سیکھ ہی  جاتا ہے ۔مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ منزل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں، دیر سے پہنچتا ہے یا سویر سے۔۔ میں نے اکثر کہا کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ بستے ہیں ، ایک وہ جو نصیحت سے سیکھتے ہیں اور ایک وہ جو اذیت سے ۔۔" مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے بیٹے سے سبق سن رہا تھا، "الف سے انار" ۔۔۔اور وہ اپنی میاں مٹھو والی آواز میں میرے پیچھے پیچھے دوہرا رہا تھا۔۔ پھرمیں نے اس سے کہا،" الف سے امرود"۔ ۔ مگر وہ نہیں بولا، پہلے تو حیران پریشان ہو کر مجھے دیکھنے لگا ۔۔ میں نے پھر دوہرایا تو مجھ سے بولا۔۔ الف سے انار ہوتا ہے ۔۔ میں ہنس دیا اور کہا کہ بیٹا، الف سے امرود بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ بولا " کہاں ہوتا ہے؟" تو میں جنجھلا سا گیا ۔۔۔
لیکن سمجھانے کی غرض سے میں نے موبائل انٹرنیٹ آن کیا اور اسے امرود دکھانے لگا۔۔۔۔امرود دیکھ کر اسے بھوک لگ گئی اور اس جناب نے امرود کھانے کی ضد شروع کردی۔۔ بہر کیف میں نے اسے بازار سے امرود لا کر دئیےاور آئندہ کے لئے اس کا سبق اس کی ماں پر چھوڑ دیا۔۔

اس سے اگلے دن ایک ایسا چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔۔۔ میں وہی بات آج بتانا چا ہتا ہوں۔۔۔ میں آفس سے واپس آیا تو میرا بیٹا جو کہ ابھی تین سے چار سال کے درمیان کا ہے، میرا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا۔۔" بابا، آپ کو سبق نہیں آتا، اور آپکی وجہ سے مجھے ٹیچر سے مار پڑی۔۔" میں نے وجہ پوچھی تو انار اور امرود کا چکر نکلا۔۔ اس نے شاید ٹیچر کو بھی الف انار کی بجائے الف امرود سنایا تھا جو کہ کتاب میں نہیں تھا۔۔۔مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ایک فکری دریافت بھی۔۔۔۔
آج کے علمی معاشرے میں ہم میں سے اکثر افراد انفرادی و اجتماعی حیثیت میں الف انار کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ بات مذہبی فکر کی ہو، علاقائی پہچان کی ، تحقیقی میدان کی یا قومیت کی۔۔ ہم اپنے علم، ذات، ، مذہب ، فکر، فقر اور صلاحیت کو الف انار بنا چکے ہیں، اور ہم الف امرود سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔۔ ہماری فکر موروثی ہے، ہمارا فقر خاندانی ہے، ہماری قومیت پیدائشی ہے اور ہمارا علم حادثاتی۔۔ ہم میں اے اکثر اس لئے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے۔۔ ہم سنی شیعہ وہابی دیوبندی اس لئے ہیں ، کیونکہ یہ ہماری موروثی جائیداد ہے اور گھٹی میں ہمیں وددیعت ہو گئی، ہم الف انار والے لوگ ہیں ، ہمارے یہاں الف سے امرود بنتا ہی نہیں۔۔ گردو پیش میں دیکھ لیجئے آپ کو موروثی عا لم ملیں گے، اور موروثی جاہل۔۔۔کوئی خواہ کسی فرقے، مکتبہِ فکر یا فقیری سلسلے سے تعلق رکھتا ہو ، کوئی بھی قومیت یا وطنیت رکھتا ہو، اس نے کبھی الف انار سے آگے کا سبق سوچا ہی نہیں۔۔۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم جو ہیں، وہ کیوں ہیں اور ہم جو نہیں ہیں وہ کیوں نہیں ہیں۔۔





 ہمیں علم کے ایک ایسے کنویں میں بند کر دیا جاتا ہے یا ہم خود ہی ایس کنویں میں آگرتے ہیں، جہاں 
ہمیں اپنی ٹرٹراہٹ کے علاوہ اور کوئی آواز کان نہیں پڑتی اور ہم کہتے ہیں سبحان اللہ۔۔۔ ہمارے علاوہ دنیا میں ہے کون۔۔ کون سامذہب، فرقہ جماعت ، لسانی یا علاقائی گروہ ہے جو ہم سے بہتر ہو۔۔ یہ وہ سوچ ہے جو الف سے انار تک ختم ہو جاتی ہے ، الف سے اگر انسان "اقراء" سیکھ لے تو سچ جانئیے،یہ الف اسے امرود، انگور، انسان حتٰی کہ اللہ تک لے جائے ، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ دنیا میں اذیت اور نصیحت سے سیکھنے والے دونوں طرح کے ہی لوگ اور معاشرے ہوا کرتے ہیں اور ہم نے اس وقت اپنی انفرادی اور اجتماعی روش سے پوری طرح اذیت سے سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
میں جب یونیورسٹی میں پڑھایا کرتا تھا، تو بہت سی طلباء تنظیموں کے کارکنان سے بادلِ ناخواستہ سامنا ہوتا رہتا تھا میں ایک لکھاری ہوں اور سیاست پر لکھنا مجھے خاص مرغوب نہیں مگر کیا کیجئے کہ سیاست اور علم کے میدانوں میں کوئی دیوار ہی نہیں چھوڑی جہل نے ،۔سیاست کے میدان میں بھی مجھے حالتِ زار الگ نظر نہیں آئی، دکھ ہوا کہ سیاسی خداوںن اور ان کے کارندوں  کی الف بھی انار پر جا کر رک گئی ہے، کسی بھی سیاسی گروہ کو اٹھا لیجئے ۔انہیں تول لیئجیے ، بڑی بات ہو گی اگر وہ اپنی پارٹی کے منشور سے واقف ہوں اور یہ تو معجزہ ہی ہو گا کہ ان میں کوئی دوسری پارٹیوں کے سیاسی منشور ، ان کی کارکردگی یا لائحہ عمل سے آگاہ ہو۔۔آپ کو  کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو الف سے انار بتا سکتے ہوں، مگر جو الف سے اقراء بتائیں ،تعلیمی اداروں میں بھی نہیں ملیں گے۔۔۔۔




ایک تحقیق کے مطابق انسان اپنے علم کا ستر فیصد دوسروں کو سن کر حاصل کرتا ہے، ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہم تمام تر علمی میدانوں اور عملی محاذوں پر کمالِ روادارِی کا مظاہرہ کریں ، حصولِ علم کے لئے اپنی آنکھ کان اور دل کھولے رکھیں اور فرقہ و جماعت،رنگ و نسل، ملک و ملت اور ذات برادری کی موروثی بیماری سے نجات پا کر الف سے اقراء کا سبق پڑھیں ۔۔ اور ایسی طفل سنی کا مظاہرہ مت کریں، جس میں آدمی کا صرف قد بڑا ہوتا ہے علم نہیں۔۔۔۔ یہی وہ راز ہے جو خودی کا بیج بوتا ہے اور جس سے انسان کو  اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔۔۔ایسا علم کوش  انسان کبھی الف سے انار تک نہیں رکتا، وہ الف سے امرود بھی سیکھتا ہے، اقراء بھی، الف سے انسان بھی اور الف سے اللہ بھی۔۔۔
ذات کی اس تعمیر ہی سے وہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جو تعصب اور خود پرستی کی دھند سے لڑنا سکھاتی ہے،۔۔۔۔ ایسے تمام طلباء جب اسکول جاتے ہیں تو اپنی ٹیچرکو الف سے انار بھی پڑھ کر سناتے ہیں اور الف سے امرود کا بھی انہیں پتا "ہوتا ہے۔۔۔۔۔دراصل یہی وہ اقبال رحمھم اللہ کے سپوت ہیں جن کے لئےاقبال نے" جوانوں کو پیروں کا استاد کر" کی دعا کی تھی۔۔۔۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو الف سے انار تک رک  گیا، اور جس کی کتاب میں الف سے امرود ہو ہی نہیں ، نہ ہی اسے الف سے اقراء کا پتاہو،وہ شخص نہ تو الف سے انگور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ الف استاد سے ہوتا ہوا اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, October 22, 2012

ادبی بے ادبی

ادبی بے ادبی

زندگی خوشی اور غمی کا ایک خوشنما امتزاج ہے،۔۔ غم نہ ہوں تو خوشیاں اپنی رونق کھو بیٹھیں ۔۔ اور خوشیاں نہ ہوں تو انسان غم کی دھارا میں اپنا آپ لٹا بیٹھے۔ مگر غم اور خوشی منانے کا اپنا اپنا قرینہ ہوتا ہے ، جسے آکتیار کئے بنا نہ تو خوشی خوشی رہتی ہے اور نہ غم زندگی میں اپنی وجودیت کا ثمر لانے میں کامیاب ہوتا ہے
نکتے کی بات کرتا ہوں۔ خوشی منانے کا سلیقہ یہ ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی خوش ہوں ۔ اور غم نبھانے کا ڈھنگ یہ کہ کوئی دوسرا اس غم سے مغموم نہ ہو۔۔ ذرا سی معاشرتی حقیقت ہے، مگر اس کو پسِ پشت ڈال کر ہم جن فتنہ آشوب برائیوں کا شکار ہیں ، ان کا تذکرہ چھیڑنا مقصود ہے۔


میں اپنے بچوں [ بتاتا چلوں کہ میں ہمیشہ سے اپنے اسٹوڈنٹس کو بچو کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہوں] کو بارہا کہتا آیا ہوں کہ  خوشیاں منانے میں کسی کو غم مت دینا، وگرنہ غم کے رستوں پر بے یار رہ جاو گے۔۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔۔ایک کالج یونیورسٹی کے طلباء ہی نہیں ، ہم سب نے معاشرتی طور پر ایسے بے ڈھنگے انداز میں خوشیاں خریدنا شروع کر دی ہیں کہ بازاری عورتیں بھی دیکھیں،  خود کو پاکباز گردا نیں۔۔۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے، کہ سڑک کنارے کسی کو پھسلتا دیکھ کر ہماری ہنسی کیوں نکل جاتی ہے۔۔ کسی بچے کو فٹبال جا لگے اور وہ زمین پر جا گرے تو ہمارے قہقہے کیوں نہیں رکتے۔۔۔۔ زیادہ چوٹ لگنے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔ مگر تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے ناں۔۔۔اور یوں بھی اپنا بچہ گرا ہو تو کون ہنستا ہے۔۔ 
دراصل ہم خوشیاں منانے کا سلیقہ بھول گئے ہیں۔۔ ہماری خوشی سے دوسرے کو بھلے دکھ ملے، ہمیں فکر نہیں، اور یہیں سے دکھوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس سے معاشرے بے حس ہو جایا کرتے ہیں۔۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں بنیادی طور پر خوش ہونے اور خوش رہنے میں فرق ہی نہیں سمجھایا جاتا۔۔۔۔ہم خوش رہنے کی بجائے خوش ہونے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں، اور المیہ یہ کہ دوسروں کو خوش کئے بنا خوش ہونے کی تگ و دو میں دکھوں کی اتنی بڑی فصیلیں کھڑی کر لیتے ہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو جیسے ہماری آنگن میں اتر ہی نہیں پاتیں۔۔






ہماری فہم میں ایک بنیادی نکتے کی غیر موجودگی اس سارے خرابے کا سبب ہے ۔ اور وہ یہی کہ خوشی کو خوشی کیسے رکھا جائے۔۔ دیکھیں ، ہم نے ایک لفظ پڑھا۔۔ " مذاق" اور یہ بھی پڑھا، کہ مزاق کیا جاتا ہے،  بنایا بھی جاتا ہے اور اڑایا بھی۔۔ مزاح کیا جاتا ہے بنایا یا اڑایا نہیں جاتا۔۔ دیکھنے میں سارے الفاظ ایک سے محاوراتی اثر کے حامل نظر آتے ہیں، مگر ایسا ہے نہیں۔۔۔ ناک سے اوپر تک باچھیں کھول کر ہنسے سے فرصت ملے تو فرق نظر آتا ہے۔۔ ایسا مزاح جو دل آزاری کا سبب نہ ہو، مزاق کرنے میں آتا ہے۔۔۔ جس سے مذاق کیا جائے اسے گراں گزرے تو اسے مزاق بنانا کہیں گے۔۔ جب کہ تکرار اور تسلسل کے ساتھ کسی کو گراں طبع مزاح سے کریدنا مزاق اڑانے  کے زمرے میں آتا ہے۔۔ جب معاشرے کی اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کی نجی مجالس ، عوامی فورم اور الیکٹرانک میڈیا پر مزاق کیا نہیں ، اڑایا جاتا ہے۔
ذرا گردوپیش کی چند مثالیں دیکھ لیجئے۔۔۔۔ " ماموں" ایک لفظ نہیں ایک رشتہ ہے ، ایک تقدس بھرا لفظ تھا، ہے نہیں۔۔۔آج مستعملِ عام مزاح کی بات کریں تو ماموں بنانا ، ابے ماموں ہے تو پورا۔۔۔ یہ جملے ان سنے نہیں مگر ان کی گہرائی میں موجود بے ادبی اب دیکھی ضرور ہے۔۔۔۔دوسرا لفظ " سالا لے لیجئے۔۔۔ناراضگی درگزر میں قطعا گالی نہیں دے رہا۔۔ مگر خدا کے بندو۔۔۔ ایسے مزاح بنانے پر لعنت جو رشتوں کو بے تقدس کردے۔۔ بیوی کا بھائی ایک مقدس رشتہ تھا کبھی ، آج سالا بھی سالا کہلانا پسند نہیں کرتا۔۔۔سبب ہماری معاشرتی کج روی ، جس کو مذاق اڑانے کی لت پڑی ہے ، مذاق کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔۔ مگر جیسے میں نے پہلے کہا کہ خوشیاں منانے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے ، وہ نہ ہو تو مذاق معاشرے کی برائی بن جاتا ہے نہ کہ اچھائی اور خوبی۔۔۔۔ کبھی مزاق اور مزاح ہمارے معاشرے کی طاقت ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے تھکے ذہن کو تفریح فراہم کرتے اور خوشیاں بانٹنے کا سلیقہ فراہم کرتے۔۔۔۔مگر بے تربیتی کے اس دور میں ہم " جغت" دریافت کرنے میں تو کامیاب رہے مگر زبان دانوں کی قبروں پر چراغ جلانا بھول گئے۔۔ اب ہماری ہنسی دوسرے کے مزاق سے شروع ہوتی ہے۔۔ کبھی ہم دائیں بیٹھے شخص کی لمبی ناک کا مذاق اڑاتے ہیں اور بارہا اور با اہتمام اڑاتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہیں بائیں بیٹھے دوست کی چھوٹی ناک کا مزاق اڑاتے ہیں۔۔۔سوچے بنا کہ خدا کی تخلیق پر حرف دراز کرنے کو مزاق نہیں ۔ توہین کہا جاتا ہے۔۔۔مگر خیر۔۔ ہم خدا دوست اور کہاں ہیں کہ اتنے باریک بیں بنیں۔۔۔سو کسی کی ماں کو گھسیٹ لا و مزاق میں کسی کے باپ کو۔۔۔ خاندانوں پر مٹی کچرے کی بو پھینک کر قہقہہ لگا لو ، یا سندھی پٹھان سکھ کے کپڑے اتار لو۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے ، مقصد تو خوش ہونا ہے ناں۔۔۔تو ٹھیک ہی ہو گا۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہنسے سے زندگی دراز ہوتی ہے، مگر خدا کی قسم جن لوازمات کے ساتھ ہم ہنستے ہیں اپنی زندگی بھی داو پر لگاتے ہیں اور دوسروں کا خون جلا کر ان کے دن بھی کم کرتے ہیں۔۔۔۔
یقین نہیں آتا تو دوستوں کی ان محفلوں کا زکر اخباروں میں پڑھ لیجئے جو ہنسی مزاق سے شروع ہو کر لڑائی جھگڑے اور بعض اوقات قتل و غارت پر ختم ہوتے ہیں۔۔۔
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ مزاح اور مذاق میں فرق ہے ، اور مذاق کے بھی تین درجے ہیں ۔۔ اگر ہم یونہی آخری درجے کی خوشیاں تراشتے رہے تو غموں کی اتنی بڑی دیوار کھڑی ہو جائیگی کہ ہم چاہ کر بھی اپنے بچوں سے معصومیت کی توقع نہیں رکھ پائیں گے۔۔۔۔ اور وہ گلی محلوں میں کہتے پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔" میرا باپ بنتا تھا سالا۔۔۔۔ماموں بنا دیا اس کو۔۔۔" اور ہم آپ اپنی تہذیب کی گندے انڈوں کو باہر گلی میں بھی پھینکنے لائق نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔

Tuesday, October 2, 2012

تھینک یو اُنھ یانگ


تھینک یو اُنھ یانگ

[ اندر باہر کے شور کی ایک کہانی]


M.A. Basit


میں کل رات کو کافی دیر سے سویا تھا، ارادہ تھا کہ چھٹی کا دن ہے تو سورج چڑھے ہی اٹھوں۔۔۔۔ مگر ایک تو ان دو کروڑ کورئین لوگوں نے جیسے میرے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے۔۔ صبح کی نماز کے بعد سویا ہی تھا، کہ فضا جنگی طیاروں کی کڑک دار آوازوں سے گونج اٹھی۔۔۔ پاکستان میں ہوتا تو سمجھتا کہ دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے یا پھر کسی اعلی سرکاری عہدے پر براجمان کسی بونے کو سلامی پیش کی جا رہی ہے۔۔۔ مگر معاملہ یہاں بر عکس تھا۔۔۔پانچ طیاروں کی ایک اور اسمبلی دھویں کے بادلوں کا پھول بناتی ہوئی گزری تو میری نظر خودبخود اس کھڑکی پر اٹک گئی، جہاں سے میں اکثر آدھی رات کے پورے چاند سے باتیں کرتا آیا ہوں۔۔۔۔۔


Korean Air Show: A festival of Skill and Professional Extreme
ہانیانگ یونیورسٹی کی ڈارمیٹری تھری اس حوالے سے بہت خوبصورت ہے کہ اس کے عقب میں ڈھلوانی کھیتوں کا ایک دلکش منظر موجود ہے ، جس سے کچھ اور دور سبزیلی چٹانیں، جن پر کوریائی سبزہ مستِ مسرت نظر آتا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو کھڑکی سے دمکتے چاند اور ڈوبتے سورج کی وہ جھلک بھی نظر آجاتی ہے جو ہم میں سے اکثر دیس کی خوشبودار مٹی پر جوان ہوتاچھوڑ آئے ہیں۔۔ خزاں کی رنگدار ادائیں اور برف کی سفید چادر تو اس سے بھی بدرجہا دلفریب نظر آتی ہے۔۔۔لیکن آج پہلی بار میں کھڑکی سے سر باہر نکال کر فضا میں کھو سا گیا تھا۔۔۔ ایک بڑا طیارہ زمین کے اتنے پاس سے ہو کے گزرا کہ جیسے اسے چوم کر گیا ہو۔۔۔۔۔۔ 
میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔میری نیند اڑ چکی تھی اور بوجھل آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح سوالوں کے بخارات
امڈ رہے تھے، جوذہن کا مطلع ابر آلود کرنے کے لئے کافی تھے۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران اس لئے تھا کہ جو قوم سڑک پر ہارن بجانے سے ڈر جاتی ہو, جن کے پاس جا کر ہلکا سا اونچا بول دو تو ان کی آنکھیں پتھرا جائیں۔۔۔وہ کیسے برداشت کر رہیں ہوں گے اس قدر شور۔۔۔۔ایسی گرجناک آواز۔۔۔۔۔
اور جب مجھے اس کا جواب پتا چلا تو میں پریشان ہو گیا۔۔۔۔۔اور اسی پریشانی نے میرے قلم کو بسترِ استراحت سے اٹھا کر، کام پر لگا دیا۔۔۔ مجھے ایک کورئین دوست اُنھ یانگ سے پتا چلا کہ ساتھ ہی ایک پریڈ ایوینیو میں کورئین افواج کا ائیر شو ہے جس میں وہ اپنی فضائی استعداد اور فنی مہارت کا عوامی مظاہرہ کر رہے ہیں، اُنھ یانگ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شو پورا ہفتہ جاری رہے گا۔۔۔۔

میں اور بھی پریشان ہوا، میری پریشانی کی دووجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ کہ پورا ہفتہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا پڑے گا جو میرے جیسے شب مزاج کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔کیونکہ رات تو ہوتی ہی دلِ آوارہِ شب کی ہے  یا پھر شب بیدار آنکھوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر میں تو اپنی پریشانی کا رونا رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری پریشانی مجھے کورین لوگوں کو سوچ کر ہوئی کہ ان کا کیا بنے گا۔۔۔یہ کیسے سہہ لیں گے۔۔۔۔اتنا شور۔۔۔پہلے خیال آیا کہ کانوں میں آئی فون کے ہیڈ فونز ڈال کر تو یہ بھاٹی گیٹ پر گھنٹوں نو نمبر ویگن کا انتظار بھی کر سکتے ہیں، مگر خیال آیا کہ رات کو تو رہے یہ گنگنم سٹائل کی روح پرور سر تال سننے سے۔۔۔۔۔جب کوئی جواب بن نہ پایا تو پھر اُنھ یانگ کو کاکائو میسیج کر ڈالا۔۔۔۔ جواب مزید پریشان کن تھا۔۔" ہمارے سر پر ہمارے دشمن  کا شور اس سے بھی زیادہ ہے، اس کی آواز کو مارنے کےلئے ہم ایسے کتنے ہی کڑک دار شور گلے  لگا سکتے ہیں۔۔۔"
اُنھ یانگ بھی مجھے میری زبان میں جواب دینے لگ چکا ہے۔۔۔یہ وہ جملہ ہے جو میں اّپ تک اور پھر آپ سے آگے جہاں تک ممکن ہوا،شئیر کرنے آیا ہوں۔۔۔۔


Pakistan Air Festival 2002: An Event of Patriotism and Skill
میں پاکستان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے چہروں پر جھنڈے پینٹ کروا کر چھ ستمبر کی اسلحہ نمائشیں دیکھیں ہیں۔۔۔ ریل گاڑی پر ٹینک جاتے دیکھ کر سلییوٹ کئے ہیں ، اور ہوا میں اڑتے طیارے دیکھ کر چھت پرکڑی دھوپ میں گھنٹوں گزارے ہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ چھ ستمبر کو یومِ دفاع کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ستمبر کا ایک پورا ہفتہ بری، بحری اور فضائی افواج کے ترانے نہ صرف گلی گلی سنے جاسکتے تھے بلکہ، پاکستان کے اکلوتے ٹی وی چینل پی ٹی وی اور بعدازاں پی ٹی وی ٹو کے چہرے پر بھی قومی و ملی محبت کے سُر بکھرے رہتے تھے۔۔۔ مجھے تو ۲۳ مارچ کی وہ پریڈ بھی یاد ہے جس میں، افواجِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اور چاروں صوبوں کے ثقافتی ڈیمو پریڈ میں شرکت کرتے تھے جن کے بیک گراونڈ میں لوک گیت، اسٹیج پر لوک فنکار اور سامنے سبز ہلالی پرچم نظر آیا کرتا تھا۔۔۔۔اُنھ یانگ کی بات ٹھیک تھی، ، فضا میں اڑتے ہوئےطیاروں کی آواز تو اس کے دشمنوں کے لئے شور ہے۔۔۔اس کے ملک کے باسیوں کےلئے تھوڑی۔۔۔مگر میری پریشانی اور بھی پیچیدہ تھی۔۔ چارسال قبل میں نے اپنے اسٹوڈنٹس سے کلاس میں پوچھا تھا، کل چھ ستمبر کو کس چیز کی چھٹی ہے؟ تو بی ایس سی انجینئرنگ کے اسٹودنٹس کے پاس اس سے آگے کوئی جواب نہیں تھا، کہ بس کل چھٹی ہے۔۔۔ کوئی قومی دن ہے شاید۔۔۔یہ" شاید" ہی میری پریشانی ہے  جو میری آج کی نسل کے رگ وپے میں رچ گیا ہے یا رچا دیا گیا ہے۔۔۔۔بیسیوں چینل وجود میں آگئے ، انفارمیشن تیکنالوجی کے بازار نے تجارت کے ریکارڈ قائم کر دئیے مگرآئندہ نسل کو نہ تو اقبال رحمہ اللہ کا یومِ وفات یاد ہے  اور نہ قائدِ اعظم رحمہ اللہ کے والد کا نام۔۔۔۔میں یہاں کسی سیاسی عسکری یا فلسفیائی پیرائے کو قلم بند نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وقت کے اس دوراہے پر نہ تو ٹرین پر ٹینک جاتے دیکھ کرکوئی سلیوٹ مارتا ہے اور نہ ہی کوئی گھنٹوں چھت پر ٹھہر کر فوجی طیاروں کا شور محسوس کرنے کی طلب رکھتا ہے، ہم تو بد قسمتی سے اس موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں ہماری عقل ہماری زبان سے بڑی گالیاں بکتی ہے اور ہماری حب الوطنی ہمارِ خود غرضی کے آگے روز ننگی ہوتی ہے۔۔۔فوج کا نام لو تو جمہوری ناخداوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، جمہوریت کو سلام کرو تو میڈیا کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے، میڈیا کو خراجِ عقیدت پیش کرو تو ملائے حرم کا ایمان جاگ اٹھتا ہے، اور منبر و مسجد کی ثنا لکھو تومذہبِ جدت پسندی کپڑوں سے باہر نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میں اپنی بات کو پاکستان تک رکھتا ہوں بس پاکستان تک۔۔۔اور اپنی پریشانی آپ سے شئیر کرتا ہوں۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ  کہاں ہے وہ شور جو طبع پر گراں نہیں گزرتا۔۔۔جو ننھے بچوں کو حمیت کا درس دیتا یے۔۔۔ جو ہوا میں بل کھاتے ہوئے طیاروں کی فریکوینسی پر شاہینی صلاحیتوں کو ٹیون کرتا ہے ، کہاں ہیں وہ روایات  جو عوام اور افواج کے درمیان ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ کو فروغ دیتی ہیں، کہاں ہیں وہ اسٹیج جن پر قومی رنگوں میں علاقائی رقص کئے جاتے ہیں ، کہاں ہیں وہ موسیقار جو سات زبانوں میں ایک ترانہ لکھتے تھے، کہاں ہیں قوم کے وہ بچےجو اپنی سائیکل کے ہینڈل پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر دھوپ میں بھی گاتے پھرتے تھے۔۔
میں اسی المیے کے سبب پریشان ہوں ، کہ قصدا یا غیر قصدا ہمارے معاشرتی نظام میں سے ان تمام چھوٹے چھوٹے عناصر کو نابود کردیا گیا ہے، جس سے ملی یگانگت، قومی تشخص، مذہبی رواداری ، صوبائی خودداری، نظریاتی اساسیت اور عسکری جذبات کی بیداری کو فروغ ملا کرتا تھا، پالیسی ساز ادارے جانے کون سی آڑھت میں مصروف ہیں، کہ ان کی توجہ آنے والی نسل اور ان کے مفاد پر پڑتی ہی نہیں۔۔۔۔ایسی اندھی گنگی بہری نسل پیدا کی جا رہی ہے جن کا اندر ہی شور ہے، کنفیوژن کا شور۔۔۔بے رہروی کا شور۔۔۔۔بے علمی کا شور۔۔۔۔
مائیکرو بائیو چپس سنٹر کے پہلو میں ساوتھ کوریا کی افواج کا یہ عملی مظاہرہ چند روز اور جاری رہے گا، اور جانے میں رات کے شور سے سمجھوتا کرتا ہوں یا دن کے شور سے۔۔۔۔دن میں سوتا ہوں یا رات مجھے پناہ دیتی ہے، یہ سوال الگ ۔۔مگر مجھے یقین ہے اُنھ یانگ کو نیند اپنے وقت پر ہی آجائیگی، کیونکہ اس کے لئے یہ شور وہ نعرہِ مستانہ ہے جو ہنگامہِ فردا کا اعلان ہے اور جس سے لوگ سو جاتے ہیں ، مگر ان کا قومی ضمیر اور تشخص جاگتا رہتا ہے۔۔ 


Pakistani Soldiers Showing their Skills
مجھے لگتا ہے، کہ مستنصر حسین تارڑ کے سارے "بی بے" بچوں کو اب اپنے اندر کے شور کو یاد کرکے شور کرنا ہوگا اور اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ملی، معاشرتی اور قومی شناخت اجاگر کرنا ہو گی۔۔ ورنہ اندر اور باہر کا شور مل کر ہمیں بے نسل کر دے گا، اور ہمارے بچے ہم سے آکر پاکستان کا مطلب پوچھیں گے ، اور شاید ہمارے پاس انہیں دکھانے کے لئے ایک پرانے سے نقشے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, September 8, 2012

امن اور آشتی


امن اور آشتی
( The story of now and then)


Author: Abdul Basit Saim
ab_saim@hotmail.com
+82-10-2945-4810

کل یہاں جنوبی کوریا کے ایک تفریحی مقام پر جانے کا اتفاق
ہوا۔ ہان یانگ یونیورسٹی سے کم و بیش دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یوای نارو کا یہ پوائنٹ دنیا  میں جنت نہ صحیح ،[ کہ یہ میرے عقیدے سے متصادم تشبیہہ ہے]، لیکن ایک سحرانگیز رومانوی اور روح پرور مقام ضرور ہے۔۔دریائے ہان کے کنارے کوریائی سبزہ اور اس میں ہوا سے اٹھکیلیاں کرتے پھول مخملی اداوں کا ہر وہ گیت گا رہے تھے ، جو ہم بچپن میں پرستان کی کہانیوں اور کوہ قاف کے افسانوں میں

پڑھتے آئے ہیں۔  سورج  مغرب میں واقع سئیول ٹاور سے گلے مل رہا تھا اور شام
 دھیمے قدموں سے ننگے پاوں دریا کے پانی میں اتر رہی تھی۔۔۔۔

بلند وبالا عمارات اور جھلملاتی روشنیوں سے آراستہ سڑکیں اس تفریح گاہ کے
 دونوں طرف چاک و چوبند پہرے داروں کی طرح استادہ موجود تھیں۔۔۔
میں نے اور دیگر دوستوں نے بیٹھنے کے لئے جو جگہ منتخب کی، ، بلکہ سچ کہئے تو جو جگہ ہمیں بیٹھنے کو ملی، اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب خاموشی کی دھن پر جگمگاتے دریا کے سینے پر پل تھے، جو تعمیراتی اسلوب کی الگ کہانی ہیں۔۔۔۔




مگر میں یہاں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ننھے منے بچے، چلتے پھرتے بوڑھے، سائکلنگ ٹریک پر لہراتے نوجوان، مخملی گھاس کی آغوش میں حسبِ طلب اٹھکیلیاں کرتے رومانوی جوڑے، فضا میں دھن بکھیرتے ہوئے موسیقی ساز اور  چند ایک نشے میں دھت گرتے پڑتے لوگ، میری نظروں میں گڑ رہے تھے۔۔


 میں ان لوگوں میں سے ہوں ، جو ملک، مذہب اور ماں باپ کو گالی دینا گناہ سمجھتے ہیں، مجھے رہ رہ کر خون آلود سڑکیں یاد آرہیں تھیں، جو میرے ملک کا مقدر بن چکی ہیں۔۔۔مجھے ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا ہے، پیارے پاکستان سے آئے ہوئے۔۔۔ میں دیکھ کر آیا ہوں کہ ہم نے جو ملک خون بہا کر حاصل کیا تھا، وہاں اب بھی خون بہہ رہا ہے۔۔۔مگر اس بار نہ سکھ حملہ آور ہیں نہ ہندو شر انگیز۔۔۔۔


منٹو پارک لاہور ہو، شاہ شمس پارک ملتان یا لال سوہانرا بہاولپور۔۔۔منظر اپنی موت کے منتظر نظر آتے ہیں۔۔۔ خوف بچوں کی شرارتوں کا خون چوس رہا ہے اورڈر بارود کی بو کی طرح گلیوں ، ، چوراہوں سڑکوں میں اڑتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔
آہ ۔۔۔ہم نہ اسلامی بن سکے، نہ فلاحی، نہ جمہوری۔۔۔۔ان تمام مسائل اور حقائق کی
بحث سے قطع نظر ، میں امید کی کرنیں ڈھونڈتا رہا، جو کبھی مرتی نہیں ہیں۔۔۔۔۔
امید کی ایک کرن تو ابھی ابھی جنوبی کوریا کی فضائی حدود سے اتر کر آئی ہے۔۔۔۔ کم و بیش ستر سے زیادہ فرزندانِ مملکت  حصول تعلیم کی خاطر یہاں آئے۔۔۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نہیں ان غریب کسانوں، مزدوروں، ہاریوں اور دہقانوں کے سکالرشپ پر، جن کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو عید کہلاتی ہے۔۔۔
اس پاکستان کے بیٹے ہیں ہم ، جس کے سینے پر دہشت گردی ناسور بن کر پنپ رہی ہے۔۔۔ جس کے کچے گھروں کو سیلاب کا سانپ ہر ساون میں ڈس جاتا ہے۔۔۔۔جس کی چٹانوں پر اب بھی زلزلہ زدہ مکانات کل کی آس لگائے زندہ ہیں۔۔۔
میں بھی آج کی دنیا میں جینا چاہتا ہوں، مگر مجھے تو نہیں بھولتا، کہ مسجدوں ، بازاراوں اور چوکیوں پر دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کے پچاس پچاس ہزار کے چیک ابھی تک کیش نہیں ہو سکے۔۔۔۔مرنے والوں کی بن بیاہی بیٹیوں کو لاکھ روپے کی امداد تک نہیں ملی۔۔۔۔۔ 

تصویر کا دوسرا رخ بھی ہو گا۔۔۔ مگر مری امید کی کرن مجھے عزیز ہے۔۔۔ میں تو سوچتا ہوں کہ یہ سپوت گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ کماو پتر بن کر۔۔۔ الیکٹرانکس کی ایجادات ان کے ہاتھوں میں ہوں گی۔۔کیمِائی تجربات و تجزیات کی دنیا ان کے پاوں چھو کر ان سے ملے گی۔۔ ادویہ سازی کے میناراتی تصور ان کے دم سے زندہ ہو گیں۔۔ معاشرتی، معاشی ، ثقافتی و نفسیاتی فلسفوں کی کتابیں ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گی۔۔  یقینا طبی و طبعی ، نباتاتی و جماداتی تکنیکی و میکانی کہکشاوں پر ان کے نام کے ستارے بھی ہوں گے۔۔۔۔ اور یہی وہ نقطہ ہو گا، جہاں سے وطن کی مرجھائی ہوئی آنکھوں میں زندگی کی کرنیں دوڑیں گی۔۔۔

مگر مجھے ایک خوف بھی ہے۔۔۔وہی جس کا ذکر اشفاق صاحب مرحوم کیا کرتے تھے، کہ جن قوموں سے علم چھن جائے، اس کے افراد غیر دنیا کی ترقی اور علمی استعداد سے مرعوب ہو کر اپنے ملک، مذہب اور گھر سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور ایسے افراد صحیح معنوں میں نابلد رہتے ہیں۔۔۔ 


یوای نارو کی خوبصورتی کی قسم۔۔ میں اپنے گھر سے کبھی نفرت نہیں کروں گا۔۔۔ اور میرے جیسے کئی آشفتہ سر ہوں گے، جو کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے موتیوں کی مالا بنا کر اپنے گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ جہاں بوڑھی مٹی مرتی ہوئی امیدیں لے کر منتظر ہے۔۔۔ جہاں لاکھوں یواینارو امن ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔جہاں راوی ، ستلج چناب ایک عمر سے اپنے کناروں پر مخملی گھاس کے منتظر ہیں اور جہاں شام محبت کی پازیب پہن کر جھلملاتے پانی میں اترنے کی خواہش میں بوڑھی ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ علم کی دولت سے مقام پانے والے یہ سپوت ، کماو پتر بن کر گھر لوٹیں گے۔۔۔اور دھرتی کا قرض نفع سمیت واپس لوٹائیں گے۔۔۔۔۔۔انشاء اللہ 

Monday, April 23, 2012

Saying HELLO to Spring......

 (A few Pictures and Comments by A.B. Saim )  

"Whenever green,I think Its YOU inside me,..........."


 "If your past is darkish, you can have a brighter contrast of your future."


 "If you can touch the flower's heart, U can touch the sky indeed."


 "I know I have NEW people to live with, But I have my eyes all through the seasons passed.."


 "Stars are in your eyes; not always in the skies.."


 "Comparing the Nature to Science, I always have a silent end......."


 "Looking a tree from a window is far less beautiful than looking at the same window through the same tree.."


 " Rigid in believes, wavy in moods and fragrant in relations is the man inside me.."



 " The nature invites us, but we are just passed and set at our cyclic positions..."


 "Even if you are not loved, You have no excuse to hate...."


 "Feeling you around is the only asset of mine in the hour of loneliness."


 "Those who are nearer to you are not always better for you..."


 " Feeling the LOVE is stronger than capturing the flower heart...."


 " Whenever lost in my dreams, I have a stary nite or a blossoming day.."


 "Determination is carved on ones face as a mark of victory.."


 " You can create love in your enemies, once you know what love is..."


" If you donot have leaves to offer your shade, offer your colors to the people"

 "The Life is Happiness and Sadness side by side."


 "If you can touch the flower's heart, U can touch the sky indeed." 


"A big smile can have a very smile reason." 


  "Even among-st the wildish realities, there are a few with colorful meanings..."


 "Even if you are not loved, You have no excuse to hate...."


 "Feeling you around is the only asset of mine in the hour of loneliness."


 "When you have full of blossoms, you have half to live...." 


" Whenever lost in my dreams, I have a stary nite or a blossoming day.."

>....................................................<



Wednesday, March 7, 2012

الرجی

الرجی
[مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو]

آج ماسٹر  انور کے گھر بہت رونق تھی۔ اس کا بیٹا اعلی تعلیم کے لئے ولایت جا رہا تھا۔ اس کی خوشی کی انتہا تھی کہ اس نے اپنے پتر رفیق  کا سامان تک خود باندھا تھا۔ دوست یار، رفیق کو فیقا کہا کرتے۔ مگر جب سے وہ شہر کے بڑے اسکول سے پڑھ کر آیا تھا ، نہ تو وہ بچپن کے دوستوں کے ساتھ ذیادہ بیٹھنا پسند کرتا اور نہ ہی ان کے مزاق کو سراہتا۔۔۔۔
لیکن کچی مٹی پہ چلنے والے کیا جانیں کہ شہری بابو کو کیا بھاتا ہے کیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پتر۔ کچھ وقت پنڈ میں گزار لے۔۔۔اور کتنا پڑھے گا"۔۔۔ فیقے کی ماں بھی بڑی بھولی تھی۔۔۔"

ماسٹر انورتو فیقے کا سامان پورا کرنے میں ہی جُتا رہا۔ وہ خوش جو بہت تھا۔۔۔                                                            "فیقے کی ماں۔ تجھے کیا پتا۔ پی۔ایچ-ڈی کتنی بڑی ڈگری ہے۔ دعائیں دے کے رخصت کر پتر کو"۔۔۔ رات کے کھانے پر کئ دن تک ماسٹر انور کو اپنی بیوی کے آنسو خود پونچھنے پڑتے۔۔
 اور آج کا دن تو فیقے کی ماں رویی ہی نہیں۔۔ پتا نہیں کیا قسم کھا ئ تھی۔ فیقا تیار تھا اور ماسٹر صاحب نے اپنی موٹر سائکل بھی نکال لی تھی۔ ماں نے ڈھیرساری دعائیں دیں اور گا وں والے دور تک فیقے اور اس کے باپ کو جاتا دیکھتے رہے۔ فیقے کی ماں اس وقت تک دروازے میں کھڑی رہی جب تک گا وں کی کچی 
سڑک پر اڑتی مٹی بیٹھ نہ گئ۔  اب جانے کہاں سے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔



وقت اڑتا چلا گیا اور دو برس بیت گیے۔ فیقے کے ماں باپ  نے ایک ایک دن گناتھا، لاکھوں شکوے کیے تھے ۔ کبھی فون پر بات  ہو جاتی فیقے سے تو مہینوں خوشیوں میں گزار لیتے۔۔ اب تو فیقہ خود آرہا تھا ۔ ان کی خوشی میں پورا گاوں  شریک تھا ۔ فیقے کی ماں کی آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے۔۔ جانے خوشی کے یا غم کے۔۔۔
فیقا ایک ہفتے کے لیے ہی آیا تھا اور آتے ہی بیمار پڑ گیا ۔ گاوں کی اڑتی مٹی سے اب اسے الرجی ہو رہی تھی۔۔ اور ڈاکٹر بھی تو کوئ نہیں تھا ان کے گاوں میں۔۔ خیر جیسےتیسے یہ سات دن گزرے۔۔اور فیقا واپس چلا گیا۔۔۔۔اور فیقے کے ماں باپ پھر سے دن گننے لگے۔۔۔ 
مگر فیقا پھر کبھی نہیں آیا۔۔بس  ماسٹر انور کے نام کی ایک ڈاک آئ تھی جس میں فیقے نے جاییداد کا حصہ مانگا تھا اور پیسے بجھوانے کے لیے کہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے  فیقے کی ماں کو جب یہ بتایا کہ فیقے نے وہاں شادی کر لی ہے اور وہ 
....واپس نہیں آنا چاہتا  تو وہ صدمے سے ہی جان ہار گئ۔ ماسٹر صاحب زمینوں کا اور کیا کرتے۔۔اب تھا بھی کون ۔۔ان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے فیقے کو سارے پیسے بجھوا دیئے اور اسکول کی نوکری بھی چھوڑ دی۔۔۔۔


ماسٹر صاحب اس کے بعد کہاں گئے اور کیا کرنے لگے، یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میں فیقے کے باری میں جانتا ہوں۔۔۔۔ یہ فیقا پردیس کی گلیوں میں پھرتا ہے۔۔۔۔یہ نظر نہیں آتا اور لوگوں کے اندر اترنے کی صلاحیت رکھتاہے۔۔۔ یہ ہمیں اکساتا ہے اور ہمارے اندر کے انسان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی کبھی میرے اندر بھی اتر جاتا  ہے اور تب میں بھی ایک الگ سی زبان بولنے لگتا ہوں۔۔۔ جو میری زبان نہیں ہے۔۔۔۔جو میرے ماں باپ ، میری مٹی کی زبان نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
جب میں صائم سے فیقا بن جاتا ہوں تو کہنے لگتا ہوں۔"۔ملک نے مجھے دیا کیا ہے۔۔۔۔۔ کرپشن ہی کرپشن ہے پاکستان میں تو۔۔۔۔۔۔ یار الرجی ہو جاتی ہے ائرپورٹ سے نکلتے ہی۔۔۔۔ جابز ہی نہیں ہیں بھائ۔۔۔۔جائیں تو کریں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دیکھو، ملک 
کی"۔۔۔۔۔اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


میں بالکل سیدھا سادہ سا بندہ ہوں ، مگر مجھے باتیں جلدی بھولتی نہیں ہیں۔۔میں  فیقے سے کہتا ہوں۔۔میرے اندر سے نکل پہلے۔۔۔ سامنے بیٹھ۔ ۔۔۔میں اسے اس کی کہانی سناتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ مجھے فیقا نہیں بننا۔۔۔  میں اسے بتاتا ہوں کہ یہاں کوریا میں ایک نسل نے قربانی دے کر دوسری کے لیے یہ آسانیاں پیدا کی ہیں ۔۔میں اسے بتاتاہوں کہ پروفیسر یانگ بانگ یو جو  میرے استاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایک نسل قربانی دے گی تو ہی اسے ترقی ملے گی۔۔ میں اسے بتاتاہوں کہ پروفیسر  یانگ بانگ کی ماں نے جب اسے پی۔ایچ-ڈی کے لیے بھیجا تھا تو ان کے گھر میں وہی بھوک تھی جو میرے گاوں میں ڈیرہ جماے بیٹھی ہے۔  مگر پروفیسر یانگ بانگ یو کو واپس آکر الرجی نہیں ہوئ۔ اس نے اپنے باپ کو زمین بیچنے کے لئے خط نہیں لکھا اور اس نے امریکہ جیسے بڑے ملک میں رہ جانے اور گھر بسا لینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔۔۔


میں فیقے کو بتاتاہوں کہ اس کی ماں کیوں مر گئ تھی، اس کے باپ نے پڑھانا کیوں چھوڑ دیا تھا اور میں اسے اور بھی بتانا چاہتا ہوں مگر وہ بھاگ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ کبھی اللہ نہ کرےآپ کے اندر آکر آپ کو ستاے تو اسے یاد کرا دیجئے گا ۔۔۔کہ

فیقے۔تیری دھرتی نے تجھے پہچان دی۔۔۔تو نے اسے کیا دیا؟
فیقے، تیری دھرتی نے تجھے اپنا خون دے کر پڑھنے بھیجا، تو نے اسے کیا دیا؟
فیقے، تجھے تیرے ملک نے  امید بنا کر کل کے لئے منتخب کیا، تو نے اسے کیا دیا؟
اگر وہ تب بھی نہ سمجھے ،  تو بس خدا حافظ اس کا۔۔۔۔۔
کیونکہ پردیس کی گلیوں میں ایسے فیقوں کی کمی نہیں ،جن کی مائیں دوازوں پر کھڑی، اڑتی خاک کو دیکھتے دیکھتے مر جاتی ہیں  اور اِن سے الرجی بھی برداشت نہیں ہوتی۔۔۔  دراصل ایسے لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ اپنے ملک،مذہب یا معاشرے کی فلاح اور ترقی کے لیے کردار ادا کر سکیں ۔۔ ان کے لیےیہی سزا ہی کافی ہے کہ یہ پردیس کی گمنام گلیوں میں فیقے بن کر خوارپھرتےہیں اور ان کی اگلی نسل کی اپنی کوئ پہچان نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


>>>>>>>>>>>>><<<<<<<<<<<<