طفل سنی
Writer: AB Saim |
کہتے ہیں زندگی سب سے بڑی استاد ہے ، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو شخص بے استاد ہو ، زندگی کی ڈگر پر چلنا وہ بھی سیکھ ہی جاتا ہے ۔مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ منزل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں، دیر سے پہنچتا ہے یا سویر سے۔۔ میں نے اکثر کہا کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ بستے ہیں ، ایک وہ جو نصیحت سے سیکھتے ہیں اور ایک وہ جو اذیت سے ۔۔" مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے بیٹے سے سبق سن رہا تھا، "الف سے انار" ۔۔۔اور وہ اپنی میاں مٹھو والی آواز میں میرے پیچھے پیچھے دوہرا رہا تھا۔۔ پھرمیں نے اس سے کہا،" الف سے امرود"۔ ۔ مگر وہ نہیں بولا، پہلے تو حیران پریشان ہو کر مجھے دیکھنے لگا ۔۔ میں نے پھر دوہرایا تو مجھ سے بولا۔۔ الف سے انار ہوتا ہے ۔۔ میں ہنس دیا اور کہا کہ بیٹا، الف سے امرود بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ بولا " کہاں ہوتا ہے؟" تو میں جنجھلا سا گیا ۔۔۔
لیکن سمجھانے کی غرض سے میں نے موبائل انٹرنیٹ آن کیا اور اسے امرود دکھانے لگا۔۔۔۔امرود دیکھ کر اسے بھوک لگ گئی اور اس جناب نے امرود کھانے کی ضد شروع کردی۔۔ بہر کیف میں نے اسے بازار سے امرود لا کر دئیےاور آئندہ کے لئے اس کا سبق اس کی ماں پر چھوڑ دیا۔۔
اس سے اگلے دن ایک ایسا چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔۔۔ میں وہی بات آج بتانا چا ہتا ہوں۔۔۔ میں آفس سے واپس آیا تو میرا بیٹا جو کہ ابھی تین سے چار سال کے درمیان کا ہے، میرا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا۔۔" بابا، آپ کو سبق نہیں آتا، اور آپکی وجہ سے مجھے ٹیچر سے مار پڑی۔۔" میں نے وجہ پوچھی تو انار اور امرود کا چکر نکلا۔۔ اس نے شاید ٹیچر کو بھی الف انار کی بجائے الف امرود سنایا تھا جو کہ کتاب میں نہیں تھا۔۔۔مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ایک فکری دریافت بھی۔۔۔۔
آج کے علمی معاشرے میں ہم میں سے اکثر افراد انفرادی و اجتماعی حیثیت میں الف انار کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ بات مذہبی فکر کی ہو، علاقائی پہچان کی ، تحقیقی میدان کی یا قومیت کی۔۔ ہم اپنے علم، ذات، ، مذہب ، فکر، فقر اور صلاحیت کو الف انار بنا چکے ہیں، اور ہم الف امرود سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔۔ ہماری فکر موروثی ہے، ہمارا فقر خاندانی ہے، ہماری قومیت پیدائشی ہے اور ہمارا علم حادثاتی۔۔ ہم میں اے اکثر اس لئے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے۔۔ ہم سنی شیعہ وہابی دیوبندی اس لئے ہیں ، کیونکہ یہ ہماری موروثی جائیداد ہے اور گھٹی میں ہمیں وددیعت ہو گئی، ہم الف انار والے لوگ ہیں ، ہمارے یہاں الف سے امرود بنتا ہی نہیں۔۔ گردو پیش میں دیکھ لیجئے آپ کو موروثی عا لم ملیں گے، اور موروثی جاہل۔۔۔کوئی خواہ کسی فرقے، مکتبہِ فکر یا فقیری سلسلے سے تعلق رکھتا ہو ، کوئی بھی قومیت یا وطنیت رکھتا ہو، اس نے کبھی الف انار سے آگے کا سبق سوچا ہی نہیں۔۔۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم جو ہیں، وہ کیوں ہیں اور ہم جو نہیں ہیں وہ کیوں نہیں ہیں۔۔
ہمیں علم کے ایک ایسے کنویں میں بند کر دیا جاتا ہے یا ہم خود ہی ایس کنویں میں آگرتے ہیں، جہاں
ہمیں اپنی ٹرٹراہٹ کے علاوہ اور کوئی آواز کان نہیں پڑتی اور ہم کہتے ہیں سبحان اللہ۔۔۔ ہمارے علاوہ دنیا میں ہے کون۔۔ کون سامذہب، فرقہ جماعت ، لسانی یا علاقائی گروہ ہے جو ہم سے بہتر ہو۔۔ یہ وہ سوچ ہے جو الف سے انار تک ختم ہو جاتی ہے ، الف سے اگر انسان "اقراء" سیکھ لے تو سچ جانئیے،یہ الف اسے امرود، انگور، انسان حتٰی کہ اللہ تک لے جائے ، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ دنیا میں اذیت اور نصیحت سے سیکھنے والے دونوں طرح کے ہی لوگ اور معاشرے ہوا کرتے ہیں اور ہم نے اس وقت اپنی انفرادی اور اجتماعی روش سے پوری طرح اذیت سے سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
میں جب یونیورسٹی میں پڑھایا کرتا تھا، تو بہت سی طلباء تنظیموں کے کارکنان سے بادلِ ناخواستہ سامنا ہوتا رہتا تھا میں ایک لکھاری ہوں اور سیاست پر لکھنا مجھے خاص مرغوب نہیں مگر کیا کیجئے کہ سیاست اور علم کے میدانوں میں کوئی دیوار ہی نہیں چھوڑی جہل نے ،۔سیاست کے میدان میں بھی مجھے حالتِ زار الگ نظر نہیں آئی، دکھ ہوا کہ سیاسی خداوںن اور ان کے کارندوں کی الف بھی انار پر جا کر رک گئی ہے، کسی بھی سیاسی گروہ کو اٹھا لیجئے ۔انہیں تول لیئجیے ، بڑی بات ہو گی اگر وہ اپنی پارٹی کے منشور سے واقف ہوں اور یہ تو معجزہ ہی ہو گا کہ ان میں کوئی دوسری پارٹیوں کے سیاسی منشور ، ان کی کارکردگی یا لائحہ عمل سے آگاہ ہو۔۔آپ کو کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو الف سے انار بتا سکتے ہوں، مگر جو الف سے اقراء بتائیں ،تعلیمی اداروں میں بھی نہیں ملیں گے۔۔۔۔
ایک تحقیق کے مطابق انسان اپنے علم کا ستر فیصد دوسروں کو سن کر حاصل کرتا ہے، ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہم تمام تر علمی میدانوں اور عملی محاذوں پر کمالِ روادارِی کا مظاہرہ کریں ، حصولِ علم کے لئے اپنی آنکھ کان اور دل کھولے رکھیں اور فرقہ و جماعت،رنگ و نسل، ملک و ملت اور ذات برادری کی موروثی بیماری سے نجات پا کر الف سے اقراء کا سبق پڑھیں ۔۔ اور ایسی طفل سنی کا مظاہرہ مت کریں، جس میں آدمی کا صرف قد بڑا ہوتا ہے علم نہیں۔۔۔۔ یہی وہ راز ہے جو خودی کا بیج بوتا ہے اور جس سے انسان کو اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔۔۔ایسا علم کوش انسان کبھی الف سے انار تک نہیں رکتا، وہ الف سے امرود بھی سیکھتا ہے، اقراء بھی، الف سے انسان بھی اور الف سے اللہ بھی۔۔۔
ذات کی اس تعمیر ہی سے وہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جو تعصب اور خود پرستی کی دھند سے لڑنا سکھاتی ہے،۔۔۔۔ ایسے تمام طلباء جب اسکول جاتے ہیں تو اپنی ٹیچرکو الف سے انار بھی پڑھ کر سناتے ہیں اور الف سے امرود کا بھی انہیں پتا "ہوتا ہے۔۔۔۔۔دراصل یہی وہ اقبال رحمھم اللہ کے سپوت ہیں جن کے لئےاقبال نے" جوانوں کو پیروں کا استاد کر" کی دعا کی تھی۔۔۔۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو الف سے انار تک رک گیا، اور جس کی کتاب میں الف سے امرود ہو ہی نہیں ، نہ ہی اسے الف سے اقراء کا پتاہو،وہ شخص نہ تو الف سے انگور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ الف استاد سے ہوتا ہوا اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ab kia Tareef ki ja a lafz nahi han
ReplyDelete