ادبی بے ادبی
زندگی خوشی اور غمی کا ایک خوشنما امتزاج ہے،۔۔ غم نہ ہوں تو خوشیاں اپنی رونق کھو بیٹھیں ۔۔ اور خوشیاں نہ ہوں تو انسان غم کی دھارا میں اپنا آپ لٹا بیٹھے۔ مگر غم اور خوشی منانے کا اپنا اپنا قرینہ ہوتا ہے ، جسے آکتیار کئے بنا نہ تو خوشی خوشی رہتی ہے اور نہ غم زندگی میں اپنی وجودیت کا ثمر لانے میں کامیاب ہوتا ہے
نکتے کی بات کرتا ہوں۔ خوشی منانے کا سلیقہ یہ ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی خوش ہوں ۔ اور غم نبھانے کا ڈھنگ یہ کہ کوئی دوسرا اس غم سے مغموم نہ ہو۔۔ ذرا سی معاشرتی حقیقت ہے، مگر اس کو پسِ پشت ڈال کر ہم جن فتنہ آشوب برائیوں کا شکار ہیں ، ان کا تذکرہ چھیڑنا مقصود ہے۔
میں اپنے بچوں [ بتاتا چلوں کہ میں ہمیشہ سے اپنے اسٹوڈنٹس کو بچو کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہوں] کو بارہا کہتا آیا ہوں کہ خوشیاں منانے میں کسی کو غم مت دینا، وگرنہ غم کے رستوں پر بے یار رہ جاو گے۔۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔۔ایک کالج یونیورسٹی کے طلباء ہی نہیں ، ہم سب نے معاشرتی طور پر ایسے بے ڈھنگے انداز میں خوشیاں خریدنا شروع کر دی ہیں کہ بازاری عورتیں بھی دیکھیں، خود کو پاکباز گردا نیں۔۔۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے، کہ سڑک کنارے کسی کو پھسلتا دیکھ کر ہماری ہنسی کیوں نکل جاتی ہے۔۔ کسی بچے کو فٹبال جا لگے اور وہ زمین پر جا گرے تو ہمارے قہقہے کیوں نہیں رکتے۔۔۔۔ زیادہ چوٹ لگنے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔ مگر تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے ناں۔۔۔اور یوں بھی اپنا بچہ گرا ہو تو کون ہنستا ہے۔۔
دراصل ہم خوشیاں منانے کا سلیقہ بھول گئے ہیں۔۔ ہماری خوشی سے دوسرے کو بھلے دکھ ملے، ہمیں فکر نہیں، اور یہیں سے دکھوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس سے معاشرے بے حس ہو جایا کرتے ہیں۔۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں بنیادی طور پر خوش ہونے اور خوش رہنے میں فرق ہی نہیں سمجھایا جاتا۔۔۔۔ہم خوش رہنے کی بجائے خوش ہونے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں، اور المیہ یہ کہ دوسروں کو خوش کئے بنا خوش ہونے کی تگ و دو میں دکھوں کی اتنی بڑی فصیلیں کھڑی کر لیتے ہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو جیسے ہماری آنگن میں اتر ہی نہیں پاتیں۔۔
ہماری فہم میں ایک بنیادی نکتے کی غیر موجودگی اس سارے خرابے کا سبب ہے ۔ اور وہ یہی کہ خوشی کو خوشی کیسے رکھا جائے۔۔ دیکھیں ، ہم نے ایک لفظ پڑھا۔۔ " مذاق" اور یہ بھی پڑھا، کہ مزاق کیا جاتا ہے، بنایا بھی جاتا ہے اور اڑایا بھی۔۔ مزاح کیا جاتا ہے بنایا یا اڑایا نہیں جاتا۔۔ دیکھنے میں سارے الفاظ ایک سے محاوراتی اثر کے حامل نظر آتے ہیں، مگر ایسا ہے نہیں۔۔۔ ناک سے اوپر تک باچھیں کھول کر ہنسے سے فرصت ملے تو فرق نظر آتا ہے۔۔ ایسا مزاح جو دل آزاری کا سبب نہ ہو، مزاق کرنے میں آتا ہے۔۔۔ جس سے مذاق کیا جائے اسے گراں گزرے تو اسے مزاق بنانا کہیں گے۔۔ جب کہ تکرار اور تسلسل کے ساتھ کسی کو گراں طبع مزاح سے کریدنا مزاق اڑانے کے زمرے میں آتا ہے۔۔ جب معاشرے کی اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کی نجی مجالس ، عوامی فورم اور الیکٹرانک میڈیا پر مزاق کیا نہیں ، اڑایا جاتا ہے۔
ذرا گردوپیش کی چند مثالیں دیکھ لیجئے۔۔۔۔ " ماموں" ایک لفظ نہیں ایک رشتہ ہے ، ایک تقدس بھرا لفظ تھا، ہے نہیں۔۔۔آج مستعملِ عام مزاح کی بات کریں تو ماموں بنانا ، ابے ماموں ہے تو پورا۔۔۔ یہ جملے ان سنے نہیں مگر ان کی گہرائی میں موجود بے ادبی اب دیکھی ضرور ہے۔۔۔۔دوسرا لفظ " سالا لے لیجئے۔۔۔ناراضگی درگزر میں قطعا گالی نہیں دے رہا۔۔ مگر خدا کے بندو۔۔۔ ایسے مزاح بنانے پر لعنت جو رشتوں کو بے تقدس کردے۔۔ بیوی کا بھائی ایک مقدس رشتہ تھا کبھی ، آج سالا بھی سالا کہلانا پسند نہیں کرتا۔۔۔سبب ہماری معاشرتی کج روی ، جس کو مذاق اڑانے کی لت پڑی ہے ، مذاق کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔۔ مگر جیسے میں نے پہلے کہا کہ خوشیاں منانے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے ، وہ نہ ہو تو مذاق معاشرے کی برائی بن جاتا ہے نہ کہ اچھائی اور خوبی۔۔۔۔ کبھی مزاق اور مزاح ہمارے معاشرے کی طاقت ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے تھکے ذہن کو تفریح فراہم کرتے اور خوشیاں بانٹنے کا سلیقہ فراہم کرتے۔۔۔۔مگر بے تربیتی کے اس دور میں ہم " جغت" دریافت کرنے میں تو کامیاب رہے مگر زبان دانوں کی قبروں پر چراغ جلانا بھول گئے۔۔ اب ہماری ہنسی دوسرے کے مزاق سے شروع ہوتی ہے۔۔ کبھی ہم دائیں بیٹھے شخص کی لمبی ناک کا مذاق اڑاتے ہیں اور بارہا اور با اہتمام اڑاتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہیں بائیں بیٹھے دوست کی چھوٹی ناک کا مزاق اڑاتے ہیں۔۔۔سوچے بنا کہ خدا کی تخلیق پر حرف دراز کرنے کو مزاق نہیں ۔ توہین کہا جاتا ہے۔۔۔مگر خیر۔۔ ہم خدا دوست اور کہاں ہیں کہ اتنے باریک بیں بنیں۔۔۔سو کسی کی ماں کو گھسیٹ لا و مزاق میں کسی کے باپ کو۔۔۔ خاندانوں پر مٹی کچرے کی بو پھینک کر قہقہہ لگا لو ، یا سندھی پٹھان سکھ کے کپڑے اتار لو۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے ، مقصد تو خوش ہونا ہے ناں۔۔۔تو ٹھیک ہی ہو گا۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہنسے سے زندگی دراز ہوتی ہے، مگر خدا کی قسم جن لوازمات کے ساتھ ہم ہنستے ہیں اپنی زندگی بھی داو پر لگاتے ہیں اور دوسروں کا خون جلا کر ان کے دن بھی کم کرتے ہیں۔۔۔۔
یقین نہیں آتا تو دوستوں کی ان محفلوں کا زکر اخباروں میں پڑھ لیجئے جو ہنسی مزاق سے شروع ہو کر لڑائی جھگڑے اور بعض اوقات قتل و غارت پر ختم ہوتے ہیں۔۔۔
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ مزاح اور مذاق میں فرق ہے ، اور مذاق کے بھی تین درجے ہیں ۔۔ اگر ہم یونہی آخری درجے کی خوشیاں تراشتے رہے تو غموں کی اتنی بڑی دیوار کھڑی ہو جائیگی کہ ہم چاہ کر بھی اپنے بچوں سے معصومیت کی توقع نہیں رکھ پائیں گے۔۔۔۔ اور وہ گلی محلوں میں کہتے پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔" میرا باپ بنتا تھا سالا۔۔۔۔ماموں بنا دیا اس کو۔۔۔" اور ہم آپ اپنی تہذیب کی گندے انڈوں کو باہر گلی میں بھی پھینکنے لائق نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment