Tuesday, October 2, 2012

تھینک یو اُنھ یانگ


تھینک یو اُنھ یانگ

[ اندر باہر کے شور کی ایک کہانی]


M.A. Basit


میں کل رات کو کافی دیر سے سویا تھا، ارادہ تھا کہ چھٹی کا دن ہے تو سورج چڑھے ہی اٹھوں۔۔۔۔ مگر ایک تو ان دو کروڑ کورئین لوگوں نے جیسے میرے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے۔۔ صبح کی نماز کے بعد سویا ہی تھا، کہ فضا جنگی طیاروں کی کڑک دار آوازوں سے گونج اٹھی۔۔۔ پاکستان میں ہوتا تو سمجھتا کہ دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے یا پھر کسی اعلی سرکاری عہدے پر براجمان کسی بونے کو سلامی پیش کی جا رہی ہے۔۔۔ مگر معاملہ یہاں بر عکس تھا۔۔۔پانچ طیاروں کی ایک اور اسمبلی دھویں کے بادلوں کا پھول بناتی ہوئی گزری تو میری نظر خودبخود اس کھڑکی پر اٹک گئی، جہاں سے میں اکثر آدھی رات کے پورے چاند سے باتیں کرتا آیا ہوں۔۔۔۔۔


Korean Air Show: A festival of Skill and Professional Extreme
ہانیانگ یونیورسٹی کی ڈارمیٹری تھری اس حوالے سے بہت خوبصورت ہے کہ اس کے عقب میں ڈھلوانی کھیتوں کا ایک دلکش منظر موجود ہے ، جس سے کچھ اور دور سبزیلی چٹانیں، جن پر کوریائی سبزہ مستِ مسرت نظر آتا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو کھڑکی سے دمکتے چاند اور ڈوبتے سورج کی وہ جھلک بھی نظر آجاتی ہے جو ہم میں سے اکثر دیس کی خوشبودار مٹی پر جوان ہوتاچھوڑ آئے ہیں۔۔ خزاں کی رنگدار ادائیں اور برف کی سفید چادر تو اس سے بھی بدرجہا دلفریب نظر آتی ہے۔۔۔لیکن آج پہلی بار میں کھڑکی سے سر باہر نکال کر فضا میں کھو سا گیا تھا۔۔۔ ایک بڑا طیارہ زمین کے اتنے پاس سے ہو کے گزرا کہ جیسے اسے چوم کر گیا ہو۔۔۔۔۔۔ 
میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔میری نیند اڑ چکی تھی اور بوجھل آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح سوالوں کے بخارات
امڈ رہے تھے، جوذہن کا مطلع ابر آلود کرنے کے لئے کافی تھے۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران اس لئے تھا کہ جو قوم سڑک پر ہارن بجانے سے ڈر جاتی ہو, جن کے پاس جا کر ہلکا سا اونچا بول دو تو ان کی آنکھیں پتھرا جائیں۔۔۔وہ کیسے برداشت کر رہیں ہوں گے اس قدر شور۔۔۔۔ایسی گرجناک آواز۔۔۔۔۔
اور جب مجھے اس کا جواب پتا چلا تو میں پریشان ہو گیا۔۔۔۔۔اور اسی پریشانی نے میرے قلم کو بسترِ استراحت سے اٹھا کر، کام پر لگا دیا۔۔۔ مجھے ایک کورئین دوست اُنھ یانگ سے پتا چلا کہ ساتھ ہی ایک پریڈ ایوینیو میں کورئین افواج کا ائیر شو ہے جس میں وہ اپنی فضائی استعداد اور فنی مہارت کا عوامی مظاہرہ کر رہے ہیں، اُنھ یانگ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شو پورا ہفتہ جاری رہے گا۔۔۔۔

میں اور بھی پریشان ہوا، میری پریشانی کی دووجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ کہ پورا ہفتہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا پڑے گا جو میرے جیسے شب مزاج کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔کیونکہ رات تو ہوتی ہی دلِ آوارہِ شب کی ہے  یا پھر شب بیدار آنکھوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر میں تو اپنی پریشانی کا رونا رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری پریشانی مجھے کورین لوگوں کو سوچ کر ہوئی کہ ان کا کیا بنے گا۔۔۔یہ کیسے سہہ لیں گے۔۔۔۔اتنا شور۔۔۔پہلے خیال آیا کہ کانوں میں آئی فون کے ہیڈ فونز ڈال کر تو یہ بھاٹی گیٹ پر گھنٹوں نو نمبر ویگن کا انتظار بھی کر سکتے ہیں، مگر خیال آیا کہ رات کو تو رہے یہ گنگنم سٹائل کی روح پرور سر تال سننے سے۔۔۔۔۔جب کوئی جواب بن نہ پایا تو پھر اُنھ یانگ کو کاکائو میسیج کر ڈالا۔۔۔۔ جواب مزید پریشان کن تھا۔۔" ہمارے سر پر ہمارے دشمن  کا شور اس سے بھی زیادہ ہے، اس کی آواز کو مارنے کےلئے ہم ایسے کتنے ہی کڑک دار شور گلے  لگا سکتے ہیں۔۔۔"
اُنھ یانگ بھی مجھے میری زبان میں جواب دینے لگ چکا ہے۔۔۔یہ وہ جملہ ہے جو میں اّپ تک اور پھر آپ سے آگے جہاں تک ممکن ہوا،شئیر کرنے آیا ہوں۔۔۔۔


Pakistan Air Festival 2002: An Event of Patriotism and Skill
میں پاکستان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے چہروں پر جھنڈے پینٹ کروا کر چھ ستمبر کی اسلحہ نمائشیں دیکھیں ہیں۔۔۔ ریل گاڑی پر ٹینک جاتے دیکھ کر سلییوٹ کئے ہیں ، اور ہوا میں اڑتے طیارے دیکھ کر چھت پرکڑی دھوپ میں گھنٹوں گزارے ہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ چھ ستمبر کو یومِ دفاع کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ستمبر کا ایک پورا ہفتہ بری، بحری اور فضائی افواج کے ترانے نہ صرف گلی گلی سنے جاسکتے تھے بلکہ، پاکستان کے اکلوتے ٹی وی چینل پی ٹی وی اور بعدازاں پی ٹی وی ٹو کے چہرے پر بھی قومی و ملی محبت کے سُر بکھرے رہتے تھے۔۔۔ مجھے تو ۲۳ مارچ کی وہ پریڈ بھی یاد ہے جس میں، افواجِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اور چاروں صوبوں کے ثقافتی ڈیمو پریڈ میں شرکت کرتے تھے جن کے بیک گراونڈ میں لوک گیت، اسٹیج پر لوک فنکار اور سامنے سبز ہلالی پرچم نظر آیا کرتا تھا۔۔۔۔اُنھ یانگ کی بات ٹھیک تھی، ، فضا میں اڑتے ہوئےطیاروں کی آواز تو اس کے دشمنوں کے لئے شور ہے۔۔۔اس کے ملک کے باسیوں کےلئے تھوڑی۔۔۔مگر میری پریشانی اور بھی پیچیدہ تھی۔۔ چارسال قبل میں نے اپنے اسٹوڈنٹس سے کلاس میں پوچھا تھا، کل چھ ستمبر کو کس چیز کی چھٹی ہے؟ تو بی ایس سی انجینئرنگ کے اسٹودنٹس کے پاس اس سے آگے کوئی جواب نہیں تھا، کہ بس کل چھٹی ہے۔۔۔ کوئی قومی دن ہے شاید۔۔۔یہ" شاید" ہی میری پریشانی ہے  جو میری آج کی نسل کے رگ وپے میں رچ گیا ہے یا رچا دیا گیا ہے۔۔۔۔بیسیوں چینل وجود میں آگئے ، انفارمیشن تیکنالوجی کے بازار نے تجارت کے ریکارڈ قائم کر دئیے مگرآئندہ نسل کو نہ تو اقبال رحمہ اللہ کا یومِ وفات یاد ہے  اور نہ قائدِ اعظم رحمہ اللہ کے والد کا نام۔۔۔۔میں یہاں کسی سیاسی عسکری یا فلسفیائی پیرائے کو قلم بند نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وقت کے اس دوراہے پر نہ تو ٹرین پر ٹینک جاتے دیکھ کرکوئی سلیوٹ مارتا ہے اور نہ ہی کوئی گھنٹوں چھت پر ٹھہر کر فوجی طیاروں کا شور محسوس کرنے کی طلب رکھتا ہے، ہم تو بد قسمتی سے اس موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں ہماری عقل ہماری زبان سے بڑی گالیاں بکتی ہے اور ہماری حب الوطنی ہمارِ خود غرضی کے آگے روز ننگی ہوتی ہے۔۔۔فوج کا نام لو تو جمہوری ناخداوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، جمہوریت کو سلام کرو تو میڈیا کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے، میڈیا کو خراجِ عقیدت پیش کرو تو ملائے حرم کا ایمان جاگ اٹھتا ہے، اور منبر و مسجد کی ثنا لکھو تومذہبِ جدت پسندی کپڑوں سے باہر نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میں اپنی بات کو پاکستان تک رکھتا ہوں بس پاکستان تک۔۔۔اور اپنی پریشانی آپ سے شئیر کرتا ہوں۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ  کہاں ہے وہ شور جو طبع پر گراں نہیں گزرتا۔۔۔جو ننھے بچوں کو حمیت کا درس دیتا یے۔۔۔ جو ہوا میں بل کھاتے ہوئے طیاروں کی فریکوینسی پر شاہینی صلاحیتوں کو ٹیون کرتا ہے ، کہاں ہیں وہ روایات  جو عوام اور افواج کے درمیان ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ کو فروغ دیتی ہیں، کہاں ہیں وہ اسٹیج جن پر قومی رنگوں میں علاقائی رقص کئے جاتے ہیں ، کہاں ہیں وہ موسیقار جو سات زبانوں میں ایک ترانہ لکھتے تھے، کہاں ہیں قوم کے وہ بچےجو اپنی سائیکل کے ہینڈل پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر دھوپ میں بھی گاتے پھرتے تھے۔۔
میں اسی المیے کے سبب پریشان ہوں ، کہ قصدا یا غیر قصدا ہمارے معاشرتی نظام میں سے ان تمام چھوٹے چھوٹے عناصر کو نابود کردیا گیا ہے، جس سے ملی یگانگت، قومی تشخص، مذہبی رواداری ، صوبائی خودداری، نظریاتی اساسیت اور عسکری جذبات کی بیداری کو فروغ ملا کرتا تھا، پالیسی ساز ادارے جانے کون سی آڑھت میں مصروف ہیں، کہ ان کی توجہ آنے والی نسل اور ان کے مفاد پر پڑتی ہی نہیں۔۔۔۔ایسی اندھی گنگی بہری نسل پیدا کی جا رہی ہے جن کا اندر ہی شور ہے، کنفیوژن کا شور۔۔۔بے رہروی کا شور۔۔۔۔بے علمی کا شور۔۔۔۔
مائیکرو بائیو چپس سنٹر کے پہلو میں ساوتھ کوریا کی افواج کا یہ عملی مظاہرہ چند روز اور جاری رہے گا، اور جانے میں رات کے شور سے سمجھوتا کرتا ہوں یا دن کے شور سے۔۔۔۔دن میں سوتا ہوں یا رات مجھے پناہ دیتی ہے، یہ سوال الگ ۔۔مگر مجھے یقین ہے اُنھ یانگ کو نیند اپنے وقت پر ہی آجائیگی، کیونکہ اس کے لئے یہ شور وہ نعرہِ مستانہ ہے جو ہنگامہِ فردا کا اعلان ہے اور جس سے لوگ سو جاتے ہیں ، مگر ان کا قومی ضمیر اور تشخص جاگتا رہتا ہے۔۔ 


Pakistani Soldiers Showing their Skills
مجھے لگتا ہے، کہ مستنصر حسین تارڑ کے سارے "بی بے" بچوں کو اب اپنے اندر کے شور کو یاد کرکے شور کرنا ہوگا اور اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ملی، معاشرتی اور قومی شناخت اجاگر کرنا ہو گی۔۔ ورنہ اندر اور باہر کا شور مل کر ہمیں بے نسل کر دے گا، اور ہمارے بچے ہم سے آکر پاکستان کا مطلب پوچھیں گے ، اور شاید ہمارے پاس انہیں دکھانے کے لئے ایک پرانے سے نقشے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

4 comments:

  1. I don't know what to say about patriotism. But believe me, We "Pakistani nation" only need a good leader (I am not talking about the political leader only).Pakistan is a great country with lot of resources and man power. But bad thing about us is that we don't know about our powers and what can we do. Unfortunately, our priorities has been changed, now we only care about our-self and our families. If we want to change our status from a nation to the best nation, we have to sacrifice our-self and we have to think like a nation, not like an individual(sacrificing is in meaning of thinking about community ,not only about our-self).

    I also want to say some think about writer "Mr.A.B.Saim". I am one of his students and i learned a lot good things from him(not only in the class, but most of time outside of the class). Not in the class,because i used to go to sleep in the class.But I would like to thank you for every thing you did for me as a teacher and spiritual father.

    ReplyDelete
    Replies
    1. Dear Amir....
      I donot know what to say, either to say that good for learning alot outside the class or very bad for not learning inside the class. But, Son, keep on learning through your eyes open and some day your close eyes will even open the doors of spiritual knowledge hubs for you.
      I know I have many aamirs as student of mine, but who exactly you are, will stay a question for me till further communication.
      May Allah easify the life here and hereafter for you and us all.....aamin

      Delete
  2. "میں اسی المیے کے سبب پریشان ہوں ، کہ قصدا یا غیر قصدا ہمارے معاشرتی نظام میں سے ان تمام چھوٹے چھوٹے عناصر کو نابود کردیا گیا ہے، جس سے ملی یگانگت، قومی تشخص، مذہبی رواداری ، صوبائی خودداری، نظریاتی اساسیت اور عسکری جذبات کی بیداری کو فروغ ملا کرتا تھا، پالیسی ساز ادارے جانے کون سی آڑھت میں مصروف ہیں، کہ ان کی توجہ آنے والی نسل اور ان کے مفاد پر پڑتی ہی نہیں۔۔۔۔ایسی اندھی گنگی بہری نسل پیدا کی جا رہی ہے جن کا اندر ہی شور ہے، کنفیوژن کا شور۔۔۔بے رہروی کا شور۔۔۔۔بے علمی کا شور۔۔۔۔"

    Really Nice Saim Bhai :)

    ReplyDelete