Saturday, September 8, 2012

امن اور آشتی


امن اور آشتی
( The story of now and then)


Author: Abdul Basit Saim
ab_saim@hotmail.com
+82-10-2945-4810

کل یہاں جنوبی کوریا کے ایک تفریحی مقام پر جانے کا اتفاق
ہوا۔ ہان یانگ یونیورسٹی سے کم و بیش دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یوای نارو کا یہ پوائنٹ دنیا  میں جنت نہ صحیح ،[ کہ یہ میرے عقیدے سے متصادم تشبیہہ ہے]، لیکن ایک سحرانگیز رومانوی اور روح پرور مقام ضرور ہے۔۔دریائے ہان کے کنارے کوریائی سبزہ اور اس میں ہوا سے اٹھکیلیاں کرتے پھول مخملی اداوں کا ہر وہ گیت گا رہے تھے ، جو ہم بچپن میں پرستان کی کہانیوں اور کوہ قاف کے افسانوں میں

پڑھتے آئے ہیں۔  سورج  مغرب میں واقع سئیول ٹاور سے گلے مل رہا تھا اور شام
 دھیمے قدموں سے ننگے پاوں دریا کے پانی میں اتر رہی تھی۔۔۔۔

بلند وبالا عمارات اور جھلملاتی روشنیوں سے آراستہ سڑکیں اس تفریح گاہ کے
 دونوں طرف چاک و چوبند پہرے داروں کی طرح استادہ موجود تھیں۔۔۔
میں نے اور دیگر دوستوں نے بیٹھنے کے لئے جو جگہ منتخب کی، ، بلکہ سچ کہئے تو جو جگہ ہمیں بیٹھنے کو ملی، اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب خاموشی کی دھن پر جگمگاتے دریا کے سینے پر پل تھے، جو تعمیراتی اسلوب کی الگ کہانی ہیں۔۔۔۔




مگر میں یہاں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ننھے منے بچے، چلتے پھرتے بوڑھے، سائکلنگ ٹریک پر لہراتے نوجوان، مخملی گھاس کی آغوش میں حسبِ طلب اٹھکیلیاں کرتے رومانوی جوڑے، فضا میں دھن بکھیرتے ہوئے موسیقی ساز اور  چند ایک نشے میں دھت گرتے پڑتے لوگ، میری نظروں میں گڑ رہے تھے۔۔


 میں ان لوگوں میں سے ہوں ، جو ملک، مذہب اور ماں باپ کو گالی دینا گناہ سمجھتے ہیں، مجھے رہ رہ کر خون آلود سڑکیں یاد آرہیں تھیں، جو میرے ملک کا مقدر بن چکی ہیں۔۔۔مجھے ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا ہے، پیارے پاکستان سے آئے ہوئے۔۔۔ میں دیکھ کر آیا ہوں کہ ہم نے جو ملک خون بہا کر حاصل کیا تھا، وہاں اب بھی خون بہہ رہا ہے۔۔۔مگر اس بار نہ سکھ حملہ آور ہیں نہ ہندو شر انگیز۔۔۔۔


منٹو پارک لاہور ہو، شاہ شمس پارک ملتان یا لال سوہانرا بہاولپور۔۔۔منظر اپنی موت کے منتظر نظر آتے ہیں۔۔۔ خوف بچوں کی شرارتوں کا خون چوس رہا ہے اورڈر بارود کی بو کی طرح گلیوں ، ، چوراہوں سڑکوں میں اڑتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔
آہ ۔۔۔ہم نہ اسلامی بن سکے، نہ فلاحی، نہ جمہوری۔۔۔۔ان تمام مسائل اور حقائق کی
بحث سے قطع نظر ، میں امید کی کرنیں ڈھونڈتا رہا، جو کبھی مرتی نہیں ہیں۔۔۔۔۔
امید کی ایک کرن تو ابھی ابھی جنوبی کوریا کی فضائی حدود سے اتر کر آئی ہے۔۔۔۔ کم و بیش ستر سے زیادہ فرزندانِ مملکت  حصول تعلیم کی خاطر یہاں آئے۔۔۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نہیں ان غریب کسانوں، مزدوروں، ہاریوں اور دہقانوں کے سکالرشپ پر، جن کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو عید کہلاتی ہے۔۔۔
اس پاکستان کے بیٹے ہیں ہم ، جس کے سینے پر دہشت گردی ناسور بن کر پنپ رہی ہے۔۔۔ جس کے کچے گھروں کو سیلاب کا سانپ ہر ساون میں ڈس جاتا ہے۔۔۔۔جس کی چٹانوں پر اب بھی زلزلہ زدہ مکانات کل کی آس لگائے زندہ ہیں۔۔۔
میں بھی آج کی دنیا میں جینا چاہتا ہوں، مگر مجھے تو نہیں بھولتا، کہ مسجدوں ، بازاراوں اور چوکیوں پر دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کے پچاس پچاس ہزار کے چیک ابھی تک کیش نہیں ہو سکے۔۔۔۔مرنے والوں کی بن بیاہی بیٹیوں کو لاکھ روپے کی امداد تک نہیں ملی۔۔۔۔۔ 

تصویر کا دوسرا رخ بھی ہو گا۔۔۔ مگر مری امید کی کرن مجھے عزیز ہے۔۔۔ میں تو سوچتا ہوں کہ یہ سپوت گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ کماو پتر بن کر۔۔۔ الیکٹرانکس کی ایجادات ان کے ہاتھوں میں ہوں گی۔۔کیمِائی تجربات و تجزیات کی دنیا ان کے پاوں چھو کر ان سے ملے گی۔۔ ادویہ سازی کے میناراتی تصور ان کے دم سے زندہ ہو گیں۔۔ معاشرتی، معاشی ، ثقافتی و نفسیاتی فلسفوں کی کتابیں ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گی۔۔  یقینا طبی و طبعی ، نباتاتی و جماداتی تکنیکی و میکانی کہکشاوں پر ان کے نام کے ستارے بھی ہوں گے۔۔۔۔ اور یہی وہ نقطہ ہو گا، جہاں سے وطن کی مرجھائی ہوئی آنکھوں میں زندگی کی کرنیں دوڑیں گی۔۔۔

مگر مجھے ایک خوف بھی ہے۔۔۔وہی جس کا ذکر اشفاق صاحب مرحوم کیا کرتے تھے، کہ جن قوموں سے علم چھن جائے، اس کے افراد غیر دنیا کی ترقی اور علمی استعداد سے مرعوب ہو کر اپنے ملک، مذہب اور گھر سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور ایسے افراد صحیح معنوں میں نابلد رہتے ہیں۔۔۔ 


یوای نارو کی خوبصورتی کی قسم۔۔ میں اپنے گھر سے کبھی نفرت نہیں کروں گا۔۔۔ اور میرے جیسے کئی آشفتہ سر ہوں گے، جو کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے موتیوں کی مالا بنا کر اپنے گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ جہاں بوڑھی مٹی مرتی ہوئی امیدیں لے کر منتظر ہے۔۔۔ جہاں لاکھوں یواینارو امن ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔جہاں راوی ، ستلج چناب ایک عمر سے اپنے کناروں پر مخملی گھاس کے منتظر ہیں اور جہاں شام محبت کی پازیب پہن کر جھلملاتے پانی میں اترنے کی خواہش میں بوڑھی ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ علم کی دولت سے مقام پانے والے یہ سپوت ، کماو پتر بن کر گھر لوٹیں گے۔۔۔اور دھرتی کا قرض نفع سمیت واپس لوٹائیں گے۔۔۔۔۔۔انشاء اللہ 

3 comments: