Wednesday, December 5, 2012

آجُومانی


آجُو مانی 

" کل دوپہر جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر کچن سے نکلا ہی تھا ، کہ ایک کورین آجومانی [ معمر 
عورت] سے واسطہ پڑ گیا۔۔۔ برف اب بھی پورے زوروشور سے پڑ رہی تھی اور ہوا پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس حملہ آور ہو رہی تھی۔۔ ہم ہاسٹل سے چھتری لینے جا رہے تھے۔۔میں اور مرا دوست ، جس کی زندگی کی پہلی برفباری تھی، موسم سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور تصاویر بنانے میں مگن تھے، کہ اس آجومانی کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔
" نل شی گا 좋아 چھُوا یو؟"


"Thanks to God is the best delight."
جس کا مطلب ہے  موسم تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟
مگر میں سمجھاکہ وہ کہہ رہی ہے۔۔۔۔
" نل شی کا چھُو  (추위) آیو۔۔؟" جس کا مطلب ہے کہ کیا موسم بہت سرد ہے؟ "
ملتان کا باسی منفی دس پر کیا کہہ سکتا ہے، جھٹ سے کہہ دیا۔۔۔
" نے۔۔ آجو چھُو آیو۔۔۔۔۔۔ ہاں بہت ٹھنڈا ہے۔۔۔
کدال سے راستہ بناتی آجومانی سمجھی کہ میں کہہ رہا ہوں بہت اچھا ہے۔۔اور اس کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔۔۔اور اس نے منہ بسورتے ہوا کہا۔۔۔۔"آجومانی شیرو ہئیو ، مانی ہمدرائیو [ مجھے بہت برا لگ رہا ہے، بہت تھک گئی ہوں کام کرتے کرتے"۔۔۔۔
"When we sit inside warm, there can be someone dying cold" [A.B. Saim]
میں سمجھ گیا کہ وہ ٹھنڈے کا نہیں۔ اچھے یا برے کا پوچھ رہی تھی۔۔ مگر ساتھ ہی میں ایک اور حقیقت بھی سمجھ آئی زندگی کی۔۔۔۔ وہ یہ کہ ظاہرا یا عموما جو موسم یا مظہر خوشی کا استعارہ بنا لیا جاتا ہے، وہ سب کے لئے ویسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ برفیلے پہاڑوں پر لوگ ہنی مون منانے جاتے ہیں، جب کی سردی سے تنگ وہاں کے باسی دیہاڑیاں لگانے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔۔ بارش میں منچلے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جبکہ ٹھیلوں والے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے زیرِتعمیر پلوں کے نیچے جا کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔ کسان ہاتھ اٹھا اٹھا کر بارش مانگتا ہے اور مزدور دیہاڑی کے خوف سے بادلوں کو کوستا رہتا ہے۔۔۔۔ پختہ عمارتیں موسموں میں اپنے رنگوں کو نہلاتی ہیں ، جبکہ کچے مکان اپنی بنیادوں کے لرزنے سے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔۔۔ 
مظاہرِ فطرت اپنے طے کردہ دائروں میں متحرک رہتے ہیں،  اور انسان اپنی ذات اور صفات کے زیرِاثر ان سے محظوظ یا خائف رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی دن کے اجالوں سے زندگی کا سورج تراشتا ہے اور کوئی رات کے اندھیروں میں دیپ جلا کر روح کا چاند روشن کرتا ہے۔۔۔کسی کو بہاروں میں چہچہاتے پرندے سکون دیتے ہیں اور کسی کو خزاں رسیدہ پتوں میں زندگی کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔ کہیں برف کی پھسلتی ہوئی سانسوں میں خوشی اپنا رنگ جماتی ہے اور کہیں سورج کی ایک کرن سمیٹنے کے لئے آنکھیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


خدا نے جہاں مظاہرِ فطرت کو کثیرالنوع بنایا ، وہیں انسان، حیوان اور چرند و پرند
 کو طرح طرح کی خوش طبعی نواز دی۔۔۔۔ پرندوں کی مثال لے لیجئے ، تلور، لالیاں، بٹیر  پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقوں کا وہ حسن ہیں جو غول در غول گرمیوں کا تہوار منانے نکل آتے ہیں۔ جبکہ مرغابیاں انہیں علاقوں میں موسمِ سرما سے پہلے نظر بھی نہیں آتیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ، کہ سردی کا عشق ہے ان کی ذات میں ، جبکہ وہ بے چاریاں تو سربیا کی 
سردی سے تنگ آ کر یہاں پناہ لئے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
"Drive your life happily but not crazily. "    [[A.B. Saim]]

انسان اور حیوان میں بس یہِی فرق ہے۔۔۔۔محسوسات کا فرق۔۔۔ انسان اس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں ، جب تک اس کا علم اور عمل موسموں اور لمحاتی کیفیتوں سے آذاد ہو کر حقیقت کے رازوں سے آشنائی نہیں اختیار کر لیتا۔۔۔۔ عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا اس کی بڑی شرطیں ہیں۔۔۔۔۔ جو خدا کو نہیں مانتے وہ بھی عیش اور طیش میں خدائی اور اس کے اندر کے موسموں کا ادراک کر پائیں تو انسان کی تعریف پر صادق ہیں۔۔ وگرنہ خدا پر ایمان بھی ایک جزو ہے اس کے رازوں کا، کُل نہیں۔۔۔۔۔۔
انسان میں یہ سلیقہ ہونا چاہیئے کہ وہ برف پڑتی دیکھ کر چڑیوں کے گھونسلے کا بھی سوچے اور بارش کے بادل چڑھتے دیکھ کر اسے بھوکے مزدور کا خیال گھیرے۔۔۔۔گرمیاں آنے سے قبل اسے اے سی کی گیس ری فلنگ کا خیال آئے مگر اس سے پہلے آفس کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار کا خیال آنا چاہیئے جس کا سر دھوپ سے بھی زیادہ سفید ہو چکا ہو۔۔۔۔سردیوں میں گرم گرم جلیبیوں کا سن کر منہ میں پانی آنا چاہیئے، مگر جلیبیوں والے کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں بھی سردی کے معنی تلاش کرنے چاہیئں۔۔۔ 
بارش میں کوٹھی کے پینٹ کے متاثر ہونے کا خیال بھی درست ہے، مگر سرونٹ کوارٹر کی سالوں پرانی چھت کے ٹپکنے کا اندیشہ بھی تو ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ عید پر بچوں کو نئے کپڑے، کھلونے اور غبارے لے کر دینے کی تو کیا ہی بات ہے، مگر اولڈ ہوم میں پڑے بوڑھے لاوارثوں کو عید ملنے بھی تو جانا چاہیئے، ۱۴ اگست کو سائلنسر اتار کر سڑکوں پر نکل بھی آئیں تو، کم سے کم اسپتال کے پاس تو ریس نہیں دینی چاہیئے، ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی انسانیت ہے ، کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کے غم کا احساس رہ جائے۔۔ اپنی آسانیوں میں دوسروں کی تکالیف کا کم سے کم خیال ہی آجائے تو ہم انسان کہلانے کے حق دار ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ برسات کی شاموں میں مینڈک بھی ٹرٹراتے ہیں اور بارش کے بعد لاکھوں ٹِڈیاں بھی خوشی میں لہراتی پھرتی ہیں۔۔۔۔مگر وہ اشرف المخوقات نہیں کہلاتے، حیوان ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔"

[[ مضمون از برف برف چہرے: عبدالباسط صائم]]

No comments:

Post a Comment