Wednesday, June 18, 2014

The Two sides of a Story

کہانی کی مرضی یا مرضی کی کہانی











" کہتے ہیں ، مکمل جھوٹ سے ذیادہ خوفناک آدھا سچ ہوتا ہے۔۔۔۔ اور ہمارا میڈیا اور اس کے اجارہ دار آدھا سچ بولنے والی وہ فیکٹریاں ہیں ، جن میں نفرت، باہمی انتشار ، اور سیاسی ہیجان کے غلیظ دھویں کے سواء کچھ پیدا نہیں ہو رہا۔ مذہبی انتہاء پسندی ، امریکی جنگی اتحاد، فرقی پرستی اور سیاسی و طبقاتی کرپشن جیسے کیسے کیسے المیے ہیں ، جو پہلے ہی آگ پکڑے ہوئے ہیں ، اور بریکنگ نیوز، لائیو کوریج ، جاہلوں کے ٹاک شوز، اور رپورٹروں کے احمقانہ جملے اس جلتی پر تیل کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا کام خبر نشر کرنا ہے ، بلاشبہ لیکن ، وہ سچ جو شر پھیلائے ، مصلحتا تو اس کی بھی ترویج نہیں ہونی چاہیئے ، کجا یہ کہ من گھڑت یا یک طرفہ صورت گری کر کے صورتِ حالات مزید ابتر کی جائے ۔ خدا جانےا یسا وہ جان بوجھ کر کرتے ہیں ، کسی کے اشارے پر ، یا اتنی عقل ہی نہیں رکھتے، کہ ایسے نازک دور میں ان کی ذمہ داری کیا ہے ۔

کراچی میں گزشتہ پندرہ سالوں سے قتل و غارت جاری ہے ، مگر "نامعلوم" معلوم نہیں ہو سکا۔ ان کا اپنا ایک "میر" نشانہ بنے تو میرِ کارواں کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں۔ ہر دور کے حکمران کو تو گلیوں بازاروں میں گھسیٹنا مشغلہ بن گیا ہے۔ کبھی بس چلتا تھا تو عدالت اور فوج کے کپڑوں کو بھی مرضی سے اتارنا شروع کر دیا کرتے تھے ، لیکن شاید اب سبق سیکھ لیا ہے وہاں سے۔

میرا نکتہ کچھ اور ہے ۔ کہانی کی مرضی سے سب کچھ نہیں دکھایا جاتا ، بلکہ جو ہمیں بسا اوقات سمجھایا جاتا ہے وہ مرضی کی کہانی ہوتا ہے ۔ طاقتیں رکھنے والے ، جب ایوانوں اور دستور ساز اسمبلیوں میں اپنے حق میں فیصلے نہیں کروا سکتے ، وہ پولیس گردوں ، عدالتی حق فروشوں ، فوجی چالسازوں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا عرصہ دراز سے ہمارے اخبارات کی زینت بنتا آیا ہے، مجھے اب بھی یاد ہے ، کہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے ایک استاد پر جنسی ہراسمنٹ کی خبر لگوائی گئی جو، بعد میں جھوٹی نکلی، مگر تب تک عزتِ سادات کا صفایا ہو چکا تھا۔ اس کج روی نے نئے دور میں نیا رخ لیا ہے ، اور اب کہانیاں بنائی جاتی ہیں ۔ خود نہیں بنتی۔ اربابِ قلم ، طاقت کے اس جنگل میں لفظوں کی کوزہ گری سے کھیلتے ہیں ، کبھی اپنے عزائم کے لئے اور کبھی شاید کسی اور کے کہنے پر۔

منہاج القرآن کے ورکروں کے ساتھ جو ہوا، اس سے بڑھ کر گھناونا فعل ہماری تاریخ میں نہیں ہوا۔ جس طرح سے عورتیں ہلاک اور بے عزت ہوئیں ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ پولیس جس طرح مال اسباب لوٹتیں رہیں ، یہ بھی قومی شرمندگی ہے۔ حکمران جس طرح ظلم و تشدد پر اتر آئے ، یہ تو ہے ہی اللہ کے عذاب کو دعوت دینا۔

لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں، کہ جب ہم اپنے لوگوں کو اپنی قوم کو مسلسل ، نفرت ، ہیجان ، سیاسی مخاصمت، فرقہ وارانہ دانش، انقلابی سیاست ، آمرانہ اسلوب کا سبق پڑھائیں گے تو کیا کانٹے نہیں پھول اگیں گے؟ جب قادری صاحب حکومت اور نظام سب کو پلٹنے یا فوج کو منصبِ حق سے سرفراز کرنے کی تفسیر فرما کر گھسے پٹے اداروں کو مزید رسوا کریں گے تو وہ روکنا نہیں چاہیں گے۔ جب پارلیمان کو نظر انداز کر کے ، فیصلوں کا اختیار سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جائے گی تو کیا یہ خون و کشت کا بازار گرم کرنے مترادف نہیں ہوگی۔

میں یہ نہیں کہتا ، کہ فریقین سچے ہیں یا جھوٹے ہیں ۔ میں تو سیدھا سا نکتہ رکھنا چاہتا ہوں، کہ جب عوام کو یہ باور کرادیا جائے ، کہ اب فیصلے سڑکوں پر ہوں گے، اول آپ قانون ساز اداروں کا انکار کرتے ہیں۔ دوم عدلیہ کے انصاف کر سکنے کی صلاحیت سے انکار کرتے ہیں۔ سوم ، گر ایسے میں صرف فوج ہی دودھ دھلی نظر آتی ہو ، جس نے کبھی جمہوری اداروں کے آگے ماتحتی قبول ہی نہ کی ہوم تو مجھ جیسا نادان بندہ کنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے ، کہ یہ کہانی کی مرضی نہیں ، بلکہ مرضی کی کہانی ہے جو شاید جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کی طرح دستور سازی سے ، قانون کی بالا دستی سے نہیں ، بلکہ سڑکوں سے تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ مصر و شام میں چلنے والی خونی لہر کے تناظر میں تو میرا قلم اور بھی ڈر جاتا ہے کہ میں لکھوں ، کہ سڑکوں سے انقلاب لانے والوں کی مہربانی سے یا تو خونی تصادم ہوا ہے ، یا پھر فوج تشریف لائی ہے ، تیسرا تو کچھ نہیں ہوا۔ اور جس قدر بارودی جذابات ہمارے قائدین نے پاکستانیوں میں بھر رکھے ہیں ، اور جس حقارت سے ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، اگر فیصلے سڑکوں تک لائے گئے تو وہی ہو گا جو برِ صغیر کا نیا نقشہ بنانے والے چاہتے ہیں۔۔ [ خاکم بدہن]۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[ درج بالا پیرائے کو مری ذاتی رائے سمجھا جائے ، مقصد کیسی کی جذبات وابستگی یا سیاسی نظرئے کو ٹھیس پہنچانا نہیں : جزاک اللہ ]

اقتباس: برف برف چہرے : عبدالباسط صائم

مورخہ: ۱۹ جون ۲۰۱۴ء

No comments:

Post a Comment