الرجی
[مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو]
آج ماسٹر انور کے گھر بہت رونق تھی۔ اس کا بیٹا اعلی تعلیم کے لئے ولایت جا رہا تھا۔ اس کی خوشی کی انتہا تھی کہ اس نے اپنے پتر رفیق کا سامان تک خود باندھا تھا۔ دوست یار، رفیق کو فیقا کہا کرتے۔ مگر جب سے وہ شہر کے بڑے اسکول سے پڑھ کر آیا تھا ، نہ تو وہ بچپن کے دوستوں کے ساتھ ذیادہ بیٹھنا پسند کرتا اور نہ ہی ان کے مزاق کو سراہتا۔۔۔۔
لیکن کچی مٹی پہ چلنے والے کیا جانیں کہ شہری بابو کو کیا بھاتا ہے کیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
پتر۔ کچھ وقت پنڈ میں گزار لے۔۔۔اور کتنا پڑھے گا"۔۔۔ فیقے کی ماں بھی بڑی بھولی تھی۔۔۔"
ماسٹر انورتو فیقے کا سامان پورا کرنے میں ہی جُتا رہا۔ وہ خوش جو بہت تھا۔۔۔ "فیقے کی ماں۔ تجھے کیا پتا۔ پی۔ایچ-ڈی کتنی بڑی ڈگری ہے۔ دعائیں دے کے رخصت کر پتر کو"۔۔۔ رات کے کھانے پر کئ دن تک ماسٹر انور کو اپنی بیوی کے آنسو خود پونچھنے پڑتے۔۔
اور آج کا دن تو فیقے کی ماں رویی ہی نہیں۔۔ پتا نہیں کیا قسم کھا ئ تھی۔ فیقا تیار تھا اور ماسٹر صاحب نے اپنی موٹر سائکل بھی نکال لی تھی۔ ماں نے ڈھیرساری دعائیں دیں اور گا وں والے دور تک فیقے اور اس کے باپ کو جاتا دیکھتے رہے۔ فیقے کی ماں اس وقت تک دروازے میں کھڑی رہی جب تک گا وں کی کچی
اور آج کا دن تو فیقے کی ماں رویی ہی نہیں۔۔ پتا نہیں کیا قسم کھا ئ تھی۔ فیقا تیار تھا اور ماسٹر صاحب نے اپنی موٹر سائکل بھی نکال لی تھی۔ ماں نے ڈھیرساری دعائیں دیں اور گا وں والے دور تک فیقے اور اس کے باپ کو جاتا دیکھتے رہے۔ فیقے کی ماں اس وقت تک دروازے میں کھڑی رہی جب تک گا وں کی کچی
سڑک پر اڑتی مٹی بیٹھ نہ گئ۔ اب جانے کہاں سے اس کی آنکھوں میں پانی آگیا تھا۔
فیقا ایک ہفتے کے لیے ہی آیا تھا اور آتے ہی بیمار پڑ گیا ۔ گاوں کی اڑتی مٹی سے اب اسے الرجی ہو رہی تھی۔۔ اور ڈاکٹر بھی تو کوئ نہیں تھا ان کے گاوں میں۔۔ خیر جیسےتیسے یہ سات دن گزرے۔۔اور فیقا واپس چلا گیا۔۔۔۔اور فیقے کے ماں باپ پھر سے دن گننے لگے۔۔۔
مگر فیقا پھر کبھی نہیں آیا۔۔بس ماسٹر انور کے نام کی ایک ڈاک آئ تھی جس میں فیقے نے جاییداد کا حصہ مانگا تھا اور پیسے بجھوانے کے لیے کہا تھا۔ ماسٹر صاحب نے فیقے کی ماں کو جب یہ بتایا کہ فیقے نے وہاں شادی کر لی ہے اور وہ
....واپس نہیں آنا چاہتا تو وہ صدمے سے ہی جان ہار گئ۔ ماسٹر صاحب زمینوں کا اور کیا کرتے۔۔اب تھا بھی کون ۔۔ان کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انہوں نے فیقے کو سارے پیسے بجھوا دیئے اور اسکول کی نوکری بھی چھوڑ دی۔۔۔۔
ماسٹر صاحب اس کے بعد کہاں گئے اور کیا کرنے لگے، یہ تو میں نہیں جانتا لیکن میں فیقے کے باری میں جانتا ہوں۔۔۔۔ یہ فیقا پردیس کی گلیوں میں پھرتا ہے۔۔۔۔یہ نظر نہیں آتا اور لوگوں کے اندر اترنے کی صلاحیت رکھتاہے۔۔۔ یہ ہمیں اکساتا ہے اور ہمارے اندر کے انسان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کبھی کبھی میرے اندر بھی اتر جاتا ہے اور تب میں بھی ایک الگ سی زبان بولنے لگتا ہوں۔۔۔ جو میری زبان نہیں ہے۔۔۔۔جو میرے ماں باپ ، میری مٹی کی زبان نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔
جب میں صائم سے فیقا بن جاتا ہوں تو کہنے لگتا ہوں۔"۔ملک نے مجھے دیا کیا ہے۔۔۔۔۔ کرپشن ہی کرپشن ہے پاکستان میں تو۔۔۔۔۔۔ یار الرجی ہو جاتی ہے ائرپورٹ سے نکلتے ہی۔۔۔۔ جابز ہی نہیں ہیں بھائ۔۔۔۔جائیں تو کریں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاست دیکھو، ملک کی"۔۔۔۔۔اور جانے کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بالکل سیدھا سادہ سا بندہ ہوں ، مگر مجھے باتیں جلدی بھولتی نہیں ہیں۔۔میں فیقے سے کہتا ہوں۔۔میرے اندر سے نکل پہلے۔۔۔ سامنے بیٹھ۔ ۔۔۔میں اسے اس کی کہانی سناتا ہوں اور اسے بتاتا ہوں کہ مجھے فیقا نہیں بننا۔۔۔ میں اسے بتاتا ہوں کہ یہاں کوریا میں ایک نسل نے قربانی دے کر دوسری کے لیے یہ آسانیاں پیدا کی ہیں ۔۔میں اسے بتاتاہوں کہ پروفیسر یانگ بانگ یو جو میرے استاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ایک نسل قربانی دے گی تو ہی اسے ترقی ملے گی۔۔ میں اسے بتاتاہوں کہ پروفیسر یانگ بانگ کی ماں نے جب اسے پی۔ایچ-ڈی کے لیے بھیجا تھا تو ان کے گھر میں وہی بھوک تھی جو میرے گاوں میں ڈیرہ جماے بیٹھی ہے۔ مگر پروفیسر یانگ بانگ یو کو واپس آکر الرجی نہیں ہوئ۔ اس نے اپنے باپ کو زمین بیچنے کے لئے خط نہیں لکھا اور اس نے امریکہ جیسے بڑے ملک میں رہ جانے اور گھر بسا لینے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔۔۔
میں فیقے کو بتاتاہوں کہ اس کی ماں کیوں مر گئ تھی، اس کے باپ نے پڑھانا کیوں چھوڑ دیا تھا اور میں اسے اور بھی بتانا چاہتا ہوں مگر وہ بھاگ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر وہ کبھی اللہ نہ کرےآپ کے اندر آکر آپ کو ستاے تو اسے یاد کرا دیجئے گا ۔۔۔کہ
فیقے۔تیری دھرتی نے تجھے پہچان دی۔۔۔تو نے اسے کیا دیا؟
فیقے، تیری دھرتی نے تجھے اپنا خون دے کر پڑھنے بھیجا، تو نے اسے کیا دیا؟
فیقے، تجھے تیرے ملک نے امید بنا کر کل کے لئے منتخب کیا، تو نے اسے کیا دیا؟
اگر وہ تب بھی نہ سمجھے ، تو بس خدا حافظ اس کا۔۔۔۔۔
کیونکہ پردیس کی گلیوں میں ایسے فیقوں کی کمی نہیں ،جن کی مائیں دوازوں پر کھڑی، اڑتی خاک کو دیکھتے دیکھتے مر جاتی ہیں اور اِن سے الرجی بھی برداشت نہیں ہوتی۔۔۔ دراصل ایسے لوگ اس قابل ہی نہیں ہوتے کہ اپنے ملک،مذہب یا معاشرے کی فلاح اور ترقی کے لیے کردار ادا کر سکیں ۔۔ ان کے لیےیہی سزا ہی کافی ہے کہ یہ پردیس کی گمنام گلیوں میں فیقے بن کر خوارپھرتےہیں اور ان کی اگلی نسل کی اپنی کوئ پہچان نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
>>>>>>>>>>>>><<<<<<<<<<<<
amazing sir!
ReplyDeletelast para parh k tu ansu e aa gye...
hum ye tu boht jald keh dete hain k hamare mulk ne hamain kya diya, agr yehi swawl hamara mulk ham se kre tu phr hamre liye koi jawab nai aye ga.
continue your efforts sir!
and keep us our realizing our mistakes..
Very nice Basit.. very well written, especially the thing u mentioned that ''this feeqa goes inside us sometimes,..'' but just try to avoid some names in your writings, will be more good, open writing is better :)
ReplyDeletekam o baish hum sub ki kahani yehi ha..hum sub apny peechy... perdes gay baity pa fakhar karta phirta aik master anwar aur baity k intazaar ma baithi aik borhi maa ..chorh k aay hain.. aub yeh hum pa hay k hum feeqay ka roop dharain ya apny asal aur pahchan ko yaad rakhain.. khuda hamary haal pa reham kary .. ameen .. v well written ..
ReplyDelete