روح کی غذا یا موت
" آج سے قریبا سات سال پہلے کی بات ہے، میں انجینرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اور لاہور ہی میں مقیم تھا۔۔ مہینے میں ایک دفعہ گھر چار دن کی چھٹی پر جایا کرتا تھا،۔۔ ان دنوں نئے نیے پولی فونک رنگ ٹون اور ویڈیو والے موبائلز آئے تھے ، سو پیسے جوڑ توڑ کر میں نے بھی سونی اریکسن کا ایک موبائل لے لیا، اور چند ایک ٹیونز کاپی رکھ لیں جو یقینا گانوں کی دھن پر تھیں۔۔ اس دور میں اکثر لوگوں نے گانے بھی رنگ ٹیونز پر لگائے ہوتے تھے، جو مجھے یقین ہے اب بھی لگائے جاتے ہوں گے۔۔ خیر میں اپنا نیا موبائل لے کر اپنے گاوں کی پرانی حویلی میں جب نانا ابو سے ملنے گیا، تو انہوں نے میرے موبائل کی خاصی تعریف کی، جب تک وہ بجا نہیں۔۔ برکت کی دعا بھِی کی۔۔۔٫
مرے نانا ابو ، اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آج کی نسل سے تو ہزارہا راسخ العقیدہ اور با عمل انسان تھے،۔۔ مجھ سے نہایت شفقت کرتے اور گھنٹوں پاس بٹھا کر دھویں بھری انگیٹھی کو سلگاتے ہوئے نصیحتیں کیا کرتے۔۔۔۔مری سانس کو
چھونے والے آج بھی اس دھویں اور ان نصیحتوں کی بھینی مہک محسوس کرتے ہیں۔۔۔
خیر ، ہوا یوں، کہ نانا جان، خاندان کے کچھ ذیلی امور پر بات کر رہے تھے، کہ مرے موبائل پر کال آ گئی ۔۔کوئی گانے ہی کی ٹیون تھی ، یاد نہیں۔۔۔ بس پھر کیا ہونا تھا، روایات، انا، مذہب پسندی اور آدابِ مجلس کا خون مرے ہاتھوں ہوتا دیکھ کر, ان کے سفید چہرے پرسرخی اتر آئی۔۔۔ میں نانا ابو سے ڈرتا بھی تھا، اور ادب بھی سکھایا ہے مجھے ماں باپ نے، سو سر جھکا کر ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔۔۔ بس ایک جملہ یاد رہا مجھے ۔۔۔جسے لکھنے آ بیٹھا ہوں۔۔۔۔ "یہ شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ۔۔۔"
مری بدنصیبی کہئے کہ میں دائرہ اسلام میں ابھی اتنا ہی داخل ہوا ہوں کہ ساز وآواز سے مجھے نفرت محسوس نہیں ہوتی، مگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں اور حتی الوسع بچنے کو نیکی بھِی گردانتا ہوں۔۔۔ نانا ابو کی یہ بات کہ " شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ" ، پچھلے جمعے انجانے میں مجھے یاد آ گئی اور میں برف ذدہ سڑک کنارے سوچتا گیا، کہ انہوں نے کتنی باتیں درست کہیں تھیں۔۔۔ یقینا جب ہم موبائل خریدتے ہیں تو اس میں ٹیونز تو ہوتی ہی ہیں۔۔۔ غیر شرعی نہ سہی، ثواب کا کام تو کوئی نہیں کہہ سکتا انہیں۔۔۔۔ ایک قدم اور آگے چلیئے، گانوں کی ٹیونز کر لیجئے، ہرج کیا ہے۔۔۔اور آگے بڑھتے ہیں، کالنگ ٹیوںز میں بھِی کیا مضائقہ ہے۔۔۔ رکئیے مت جی، الارمز پر بھی گانے لگا لیجئیے۔۔۔خدا نے عقل دی ہے تو کوئی سریلا سا گیت ہوگا، ورنہ اوم جے جگدیش ہرے جیسی کمپوزیشن کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔
اب میں عاقبت نا اندیش بیسویں صدی میں ان ترقی کے لوازمات اور سائنس کے معجزات سے منکر ہو کر تو مسجد سے بھِی
باہر نکل نہیں سکتا ۔۔۔۔ چلیں یوں بھی سہی۔۔۔۔۔مانے لیتے ہیں۔۔
مگر مری بات بھی تو سنئے، امامِ مسجد خطبہ جمعہ پڑھ رہے تھے، قرآن کی آیات ہمارے دلوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو شاید
کام کی تھکن سے اونگھ رہے تھے۔۔ اسی دوران ایک سام سنگ گلیکسی نے اپنی سریلی آواز میں میڈونا کا کوئی سُر بھرا گیت چھیڑ دیا، کیا کمال کی جھنکار تھی ، اس میں ۔۔۔ٹیون اچھی تھی۔۔۔لیکن ایک دم مجھے لگا کہ جیسے نانا ابو کے چہرے پر وہی پرانی روایات پسندی اور مذہب شناسی کا خون سا دوڑا ہو، سچ یہ ہے کہ مجھ سمیت کئی ایک چہرے اسی کیفیت سے دوچار تھے۔۔
میں نے نظر اوپر اٹھائی تو خطیبِ مسجد کے چہرے پر بھِی پرانی حویلی کی بوسیدہ روایات جیسا غصہ پایا۔۔۔ واہسی پر جب برف میرے بوٹ کے تلووں سے رگڑ کھا کھا کر پگھل رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا، کہ آہستہ آہستہ زہر جسم میں کیسے پھیل جاتا ہے۔۔ کل سات سال پہلے مرے نانا بزرگوں کی محفل میں گانے کی ٹیونز پر برہم ہوئے تھے تو مجھے یہ آواز شیطان کی آواز محسوس نہیں ہوئی تھِی، آج جب مسجد کے احاطے میں سروں کے سرگم جاگے ہیں تو ضمیر کی کونسی سوئی ہوئی حس جاگی ہے ۔۔۔۔ سیدھا سا سبق ہے کائنات کا ، گناہ، برائی راستہ بنانے کے لئے ہمیشی پہلے حجتوں، اشکالات اور حیلوں کا سہارا لیتی ہے۔۔ ایک دفعہ ایسا کوئی ناگ ڈس جائے ، زہر پھیلتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ معصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔۔ اور یہی ہوا۔۔۔۔ مسجد کے احاطے میں بیٹھے شخص کا فون بجتا ہے، آذان مر جاتی ہے ، ڈسپلے سکرین پر گرل فرینڈ کا مسیج تصویر کے ساتھ ابھرتا ہے تو نماز کا سر ننگا ہو جاتا ہے۔۔ انہیں موبائلز میں
گندی فلمیں اور تصاویر بھِی ہمارے ساتھ مسجد میں داخل ہوتی ہیں ، مگر ہمارا وضو نہیں ٹوٹتا۔۔۔۔۔
ارے ظالمو، تمہارا میوزک برا نہیں ہے، گانے بھِی تمہیں حلال ہوں گے ، میں بحث نہیں کرتا۔۔ اور اس میں جیسی چاہے واہیات چیزیں جمع کر رکھو، مگر خدا کے لئے ، خدا کے گھر کو تو معاف کر دو۔۔۔۔ کیونکہ جب زہر دل تک پہنچ جائے تو موت یقینی ہوتی ہے ، جیسے میرے نانا نے کہا تھا اور میں نے دیکھا، کہ موبائل کا فساد گھروں میں برپا ہوا اور گھر برباد ہوئے۔۔ اب خدا کے گھر کو برباد کرنے چلی ہے دنیا تو یاد رہے، قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے، کہ خدا کے گھر میں موسیقی کے آلات بجیں گے۔۔۔۔۔ پہلے تو گلیوں میں بجتے تھے اور نمازی تنگ آ کر لعنت بھیج دیتے تھے ، اب تو اللہ کے گھر میں بجنے لگے ہیں۔۔۔۔۔ آج سات سال بعد مجھے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ مرے نانا ابو کے چہرے پر خون کیوں اتر آیا تھا اور انہوں نے کیا دیکھ لیا تھا جو مجھے آج نظر آ رہا ہے۔۔۔"
ایک نکتہ اور بھی آج واضح ہوا، کہ جو کام مسجد کےاحاطے میں شرمساری، غصَے اور سبکی کا سبب بنا ہو ، وہ نیکی تو ہونہیں سکتا، اور اگر موسیقی کی یہ تال میل، سر سنگیت مسجد کی چاردیواری میں غیر معتبر ہیں تو ، باہر کیسے معتبر ہوگئے ۔۔۔ نیکی اور گناہ کی شدت پر مقامات اور مواقع اثر کرتے ہوں گے، مگر ان کی نوعیت کو بدل دیں ، جائز کو ناجائز کر دیں ، ایسا ممکن نہیں۔۔۔،، سادھی سی بات سمجھ آئی کہ اگر ساز و آواز درست ہے، تو پھر خدا کے گھر میں بھی بجا ہے، اور اگر خدا کے گھر میں سکون ڈھونڈنے والی روحوں کے چہرے اسے سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں تو ، پھر یہ گاوں کی پرانی حویلی میں بھی غلط ہیں، بوڑھے نانا دادا کی مجلس میں بھی مکروہ ہیں اور انگیٹھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہر اس فرد کے لئے غلط۔۔ جس کے بزرگ اسے ڈانٹ دیتے ہیں۔۔۔۔اور یہی حال ہمارے اندر اترنے والی ایسی بے شمار اور برائیوں کا ہے جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ طیش میں آجاتے ہیں، اور ہم عیش کو جی سے لگائے زہر کا گھونٹ پئے آگے چل دیتے ہیں ، جہاں سات سال بعد اس زہر کا اثر رنگ دکھانا شروع ہوجاتا ہے، مگر ہم لاچار کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ بس کسی سلگتی ہوئی انگیٹھی کے کنارے بیٹھ کر ڈانٹ سکتے ہیں۔۔۔۔کھانس سکتے ہیں۔۔۔۔۔بس