Wednesday, December 26, 2012

روح کی غذا یا موت


روح کی غذا یا موت



" آج سے قریبا  سات سال پہلے کی بات ہے، میں انجینرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اور  لاہور ہی میں مقیم تھا۔۔ مہینے میں ایک دفعہ گھر چار دن کی چھٹی پر جایا کرتا تھا،۔۔ ان دنوں نئے نیے پولی فونک رنگ ٹون اور ویڈیو والے موبائلز آئے تھے ، سو پیسے جوڑ توڑ کر میں نے بھی  سونی اریکسن کا ایک موبائل لے لیا، اور چند ایک ٹیونز کاپی رکھ لیں جو یقینا گانوں کی دھن پر تھیں۔۔ اس دور میں اکثر لوگوں نے گانے بھی رنگ ٹیونز پر لگائے ہوتے تھے، جو مجھے یقین ہے اب بھی لگائے جاتے ہوں گے۔۔ خیر میں اپنا نیا موبائل لے کر اپنے گاوں کی پرانی حویلی میں جب نانا ابو سے ملنے گیا، تو انہوں نے میرے موبائل کی خاصی تعریف کی، جب تک وہ بجا نہیں۔۔ برکت کی دعا بھِی کی۔۔۔٫
مرے نانا ابو ، اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آج کی نسل سے تو ہزارہا راسخ العقیدہ اور با عمل انسان تھے،۔۔ مجھ سے نہایت شفقت کرتے اور گھنٹوں پاس بٹھا کر دھویں بھری انگیٹھی کو سلگاتے ہوئے نصیحتیں کیا کرتے۔۔۔۔مری سانس کو

چھونے والے آج بھی اس دھویں اور ان نصیحتوں کی بھینی مہک محسوس کرتے ہیں۔۔۔
خیر ، ہوا یوں، کہ نانا جان، خاندان کے کچھ ذیلی امور پر بات کر رہے تھے، کہ مرے موبائل پر کال آ گئی ۔۔کوئی گانے ہی کی ٹیون تھی ، یاد نہیں۔۔۔ بس پھر کیا ہونا تھا، روایات، انا، مذہب پسندی اور آدابِ مجلس کا خون مرے ہاتھوں ہوتا دیکھ کر, ان کے سفید چہرے پرسرخی اتر آئی۔۔۔ میں نانا ابو سے ڈرتا بھی تھا، اور ادب بھی سکھایا ہے مجھے ماں باپ نے، سو سر جھکا کر ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔۔۔ بس ایک جملہ یاد رہا مجھے ۔۔۔جسے لکھنے آ بیٹھا ہوں۔۔۔۔ "یہ شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ۔۔۔"




مری بدنصیبی کہئے کہ میں دائرہ اسلام میں ابھی اتنا ہی داخل ہوا ہوں کہ ساز وآواز سے مجھے نفرت محسوس نہیں ہوتی، مگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں اور حتی الوسع بچنے کو  نیکی بھِی گردانتا ہوں۔۔۔ نانا ابو کی یہ بات کہ " شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ"  ، پچھلے جمعے انجانے میں مجھے یاد آ گئی اور میں برف ذدہ سڑک کنارے سوچتا گیا، کہ انہوں نے کتنی باتیں درست کہیں تھیں۔۔۔ یقینا جب ہم موبائل خریدتے ہیں تو اس میں ٹیونز تو ہوتی ہی ہیں۔۔۔ غیر شرعی نہ سہی، ثواب کا کام تو کوئی نہیں کہہ سکتا انہیں۔۔۔۔ ایک قدم اور آگے چلیئے، گانوں کی ٹیونز کر لیجئے، ہرج کیا ہے۔۔۔اور آگے بڑھتے ہیں، کالنگ ٹیوںز میں بھِی کیا مضائقہ ہے۔۔۔ رکئیے مت جی، الارمز پر بھی گانے لگا لیجئیے۔۔۔خدا نے عقل دی ہے تو کوئی سریلا سا گیت ہوگا، ورنہ اوم جے جگدیش ہرے جیسی کمپوزیشن کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔
اب میں عاقبت نا اندیش بیسویں صدی میں ان ترقی کے لوازمات اور سائنس کے معجزات سے منکر ہو کر تو مسجد سے بھِی
باہر نکل نہیں سکتا ۔۔۔۔ چلیں یوں بھی سہی۔۔۔۔۔مانے لیتے ہیں۔۔



مگر مری بات بھی تو سنئے، امامِ مسجد خطبہ جمعہ پڑھ رہے تھے، قرآن کی آیات ہمارے دلوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو شاید
 کام کی تھکن سے اونگھ رہے تھے۔۔ اسی دوران ایک سام سنگ گلیکسی نے اپنی سریلی آواز میں میڈونا کا کوئی سُر بھرا گیت چھیڑ دیا، کیا کمال کی جھنکار تھی ، اس میں ۔۔۔ٹیون اچھی تھی۔۔۔لیکن ایک دم مجھے لگا کہ جیسے نانا ابو کے چہرے پر وہی پرانی روایات پسندی اور مذہب شناسی کا خون سا دوڑا ہو، سچ یہ ہے کہ مجھ سمیت کئی ایک چہرے اسی کیفیت سے دوچار تھے۔۔

میں نے نظر اوپر اٹھائی تو خطیبِ مسجد کے چہرے پر بھِی پرانی حویلی کی بوسیدہ روایات جیسا غصہ پایا۔۔۔ واہسی پر جب برف میرے بوٹ کے تلووں سے رگڑ کھا کھا کر پگھل رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا، کہ آہستہ آہستہ زہر جسم میں کیسے پھیل جاتا ہے۔۔ کل سات سال پہلے مرے نانا بزرگوں کی محفل میں گانے کی ٹیونز پر برہم ہوئے تھے تو مجھے یہ آواز شیطان کی آواز محسوس نہیں ہوئی تھِی، آج جب مسجد کے احاطے میں سروں کے سرگم جاگے ہیں تو ضمیر کی کونسی سوئی ہوئی حس جاگی ہے ۔۔۔۔ سیدھا سا سبق ہے کائنات کا ، گناہ، برائی راستہ بنانے کے لئے ہمیشی پہلے حجتوں، اشکالات اور حیلوں کا سہارا لیتی ہے۔۔ ایک دفعہ ایسا کوئی ناگ ڈس جائے ، زہر پھیلتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ معصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔۔ اور یہی ہوا۔۔۔۔ مسجد کے احاطے میں بیٹھے شخص کا فون بجتا ہے، آذان مر جاتی ہے ، ڈسپلے سکرین پر گرل فرینڈ کا مسیج تصویر کے ساتھ ابھرتا ہے تو نماز کا سر ننگا ہو جاتا ہے۔۔ انہیں موبائلز میں
گندی فلمیں اور تصاویر بھِی ہمارے ساتھ مسجد میں داخل ہوتی ہیں ، مگر ہمارا وضو نہیں ٹوٹتا۔۔۔۔۔















ارے ظالمو، تمہارا میوزک برا نہیں ہے، گانے بھِی تمہیں حلال ہوں گے ، میں بحث نہیں کرتا۔۔ اور اس میں جیسی چاہے واہیات چیزیں جمع کر رکھو، مگر خدا کے لئے ، خدا کے گھر کو تو معاف کر دو۔۔۔۔ کیونکہ جب زہر دل تک پہنچ جائے تو موت یقینی ہوتی ہے ، جیسے میرے نانا نے کہا تھا اور میں نے دیکھا، کہ موبائل کا فساد گھروں میں برپا ہوا اور گھر برباد ہوئے۔۔ اب خدا کے گھر کو برباد کرنے چلی ہے دنیا تو یاد رہے، قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے، کہ خدا کے گھر میں موسیقی کے آلات بجیں گے۔۔۔۔۔ پہلے تو گلیوں میں بجتے تھے اور نمازی تنگ آ کر لعنت بھیج دیتے تھے ، اب تو اللہ کے گھر میں بجنے لگے ہیں۔۔۔۔۔ آج سات سال بعد مجھے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ مرے نانا ابو کے چہرے پر خون کیوں اتر آیا تھا اور انہوں نے کیا دیکھ لیا تھا جو مجھے آج نظر آ رہا ہے۔۔۔"

ایک نکتہ اور بھی آج واضح ہوا، کہ جو کام مسجد کےاحاطے میں شرمساری، غصَے اور سبکی کا سبب بنا ہو ، وہ نیکی تو ہونہیں سکتا، اور اگر موسیقی کی یہ تال میل، سر سنگیت مسجد کی چاردیواری میں غیر معتبر ہیں تو ، باہر کیسے معتبر ہوگئے ۔۔۔ نیکی اور گناہ کی شدت پر مقامات اور مواقع اثر کرتے ہوں گے، مگر ان کی نوعیت کو بدل دیں ، جائز کو ناجائز کر دیں ، ایسا ممکن نہیں۔۔۔،، سادھی سی بات سمجھ آئی کہ اگر ساز و آواز درست ہے، تو پھر خدا کے گھر میں بھی بجا ہے، اور اگر خدا کے گھر میں سکون ڈھونڈنے والی روحوں کے چہرے اسے سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں تو ، پھر یہ گاوں کی پرانی حویلی میں بھی غلط ہیں، بوڑھے نانا دادا کی مجلس میں بھی مکروہ ہیں اور انگیٹھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہر اس فرد کے لئے غلط۔۔ جس کے بزرگ اسے ڈانٹ دیتے ہیں۔۔۔۔اور یہی حال ہمارے اندر اترنے والی ایسی بے شمار اور برائیوں کا ہے جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ طیش میں آجاتے ہیں، اور ہم عیش کو جی سے لگائے زہر کا گھونٹ پئے آگے چل دیتے ہیں ، جہاں سات سال بعد اس زہر کا اثر رنگ دکھانا شروع ہوجاتا ہے، مگر ہم لاچار کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ بس کسی سلگتی ہوئی انگیٹھی کے کنارے بیٹھ کر ڈانٹ سکتے ہیں۔۔۔۔کھانس سکتے ہیں۔۔۔۔۔بس


Monday, December 24, 2012

Des in Perdes: A Report on Pakistan Culture Day in South Korea






Pakistan Cultural Expedition : Rohi Celebration

A Report By Muhammad Abdul Basit

Pakistan Community in Korea


December 22nd Saturday afternoon was a delightful and prestigious hours of daylight in South Korea for Pakistani Community, as we were given an exclusive opportunity to exhibit our cultural diversity to the international community at Korea, especially those who were resident in Seoul and its nearby. Seoul Metro-Politian Government, the main financial supporter of the event contributed a lot for the beautified  execution of Pakistan Cultural Expedition event and played a highly appreciate-able role in making this accomplishment  possible. Mr. Im Kyoung Ho from Seoul Metro-Politian Government did a splendid job through his unique motivation and personal involvement.




Being the sons of soil, Pakistani community volunteers made this event a benchmark for very minorly populated Pakistani Nationals in South Korea and designed a beautiful thought inside the minds of international community people.  Miss Julia who is a Kazakhstan National said that evening that for hwe it was a nice and informative session  to know about the rich and versatile culture of Pakistan, which she evaluated to be far away from presently depicted picture in media these days. She also said that, " I am glad that Pakistani community finally got a chance to show themselves and introduce its culture. Performances were energetic, emotional and family like. I liked what it meant for students. Their faces were shining. Dances reminded me how we celebrate our special holidays in Kazakhstan."




The Event started with the recitation of Holy Quran, as Pakistan is an Islamic country and is customized to start official and non official ceremony in such fashion. Soon After Miss Saera Shabbir with her acquiescent words sung a few lines in the praise of Holy Prophet Muhammad (Peace be upon Him). The Secretary staging the performances shortly introduced the Pakistani Culture in context of the event organization and  invited the Chief Organizer Mr. Shahzad from Hanyang University for his Welcome Speech.  Thanking to the Seoul Metro-Politian Government,  Mr. Shahzad also welcomed the attendees of the session and announced the formal start of the event. He said that It was a remarkable chance for him and his team to artistify the hidden charm of their homeland and bring the international community together with a message of peace and love. He also showed all his respect to the Seoul Metro-Politian Government for scheming such policy and inviting cultural excursions.





In the formal Session, four provincial dance performances enlightened the multi-color dressing and  instrumental spring of music. In-between various video presentations were displayed using projection tools to let the audience know about the land features and seasonal beauty of Pakistan. Also, the awards and honors of Pakistan were compiled in videos for the participants, who were really overjoyed to feel the beauty and hidden angelic face our heavenly land. More than a hundred Participants belonging to different countries including Bangladesh, India, Kazakhstan, China, Vietnam, Iran and most obviously from Pakistan and Korea not only waved their hands with the melody of these performances but their hearts too. Organizationally Transnational Asian Women, Pak-Korea and PSA South Korea also attended this cultural expedition prgram. Despite of the limited human resources and close-hall type of event, many communities were attracted to the occasion.





The formal session of day was concluded here, and people were requested to visit the Pakistan Cultural stalls, those were structured within the hall selected for the cultural day. Pakistani Dresses , Jewelry, Traditional shoes, ornamental objects, antiques, paintings, handicrafts, regional handmade fabric items like Sindhi Topi, Chadar and others were displayed for the visitors. Also, there was a HINA stall free for ladies to have hina (Tattoo-similar) designs on their hands, where foreigners took more than interest. There were many posters and banners displayed showing the various aspects and information of Pakistan as a unique civilization.



After the formal Session and stall visit, the participants were reseated to share the informal session being full of fun, amusement and interactivity. Many questions regarding Pakistan Culture and presentations were asked by Mr. Hasan Hafeez, who was hosting this session and the participants were gifted for their tasks and right answers. Lastly the session was concluded with the formal remarks from Organizers and participants were offered Desi (Pakistan) traditional Food, that was highly tasted and spicily enjoyed as last activity of the day.


Although the cultural day ended here, but the immortal feeling of love, respect and mutual understanding originated from the sun setting that day among variant nationals. Precisely, it was a limited episode of bilateral effort made by Seoul Metro-Politian and Pakistan Community, but a never ending motivation to bring the hearts and feels together for the sake of local and global objectives of humanitarianism. Long Live Pakistan, Long Live Korea



Organizers from Pakistani community, mainly comprising of Pakistani Students in Korea voluntarily  came forward and portrayed a long lasting image of their cultural and national veracity. Pakistan is a country of 180 Million people having multi-linguistic, sundry regional traditions and a variety of cultural substances including art, dances, songs, sports and foods. Pakistan is one of the few countries having all four seasons with their epical beauty and all possible geographical and climatic themes over its strategic piece of land. In this event, it was attempted to present as detailed picture of Pakistan as possible, pixling the every bit of this God-Gifted soil.

No culture is ever complete without musical essence of poetry and songs. Pakistani culture like others has a long series of musical trends branched in regional, spiritual and folk streams of love. Covering them all, Sufi Song , Musical song from Pakistani talent and a Pakistani Urdu Song was presented to feel the heart beat of a spiritful nation. Also some poetry was shared with the audience to touch the literary limits of socio-cultural Pakistan. Maintaining the decorum of Multinational gathering, an English  Song was also sung by a participant, that was highly enjoyed by the Non-Pakistani attendees as well as Pakistani community present.





The other awe-inspiring  feature of this afternoon was B-Boys Dance group performances, who additionally raised the level of fun and interest higher that afternoon. They performed two dances separated by an interval of half an hour and involved all the hearts leaving behind the cultural contrasts of various nationals attending the event. Also A solo-performer Mr. Ali Ahmed from Pakistan Student Community in Korea hold the stage for few minutes with his funny and multi-linguistic skill of pleasurable joy. 




After the ending of Pakistan Cultural Expedition Event, Mr. 최한락 said that Food was good, Performance was very lively and energetic. One of the visiting participants was overjoyed with the event day and she shared her feeling in these words, "I would like to go again, If I get a chance." Her name is 류건욱 and she is a Korean.







Note: This report is released for submission to Seoul Metro-Politian Government , also for  international electronic media publicity and press-media in Pakistan. 

Wednesday, December 5, 2012

آجُومانی


آجُو مانی 

" کل دوپہر جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر کچن سے نکلا ہی تھا ، کہ ایک کورین آجومانی [ معمر 
عورت] سے واسطہ پڑ گیا۔۔۔ برف اب بھی پورے زوروشور سے پڑ رہی تھی اور ہوا پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس حملہ آور ہو رہی تھی۔۔ ہم ہاسٹل سے چھتری لینے جا رہے تھے۔۔میں اور مرا دوست ، جس کی زندگی کی پہلی برفباری تھی، موسم سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور تصاویر بنانے میں مگن تھے، کہ اس آجومانی کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔
" نل شی گا 좋아 چھُوا یو؟"


"Thanks to God is the best delight."
جس کا مطلب ہے  موسم تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟
مگر میں سمجھاکہ وہ کہہ رہی ہے۔۔۔۔
" نل شی کا چھُو  (추위) آیو۔۔؟" جس کا مطلب ہے کہ کیا موسم بہت سرد ہے؟ "
ملتان کا باسی منفی دس پر کیا کہہ سکتا ہے، جھٹ سے کہہ دیا۔۔۔
" نے۔۔ آجو چھُو آیو۔۔۔۔۔۔ ہاں بہت ٹھنڈا ہے۔۔۔
کدال سے راستہ بناتی آجومانی سمجھی کہ میں کہہ رہا ہوں بہت اچھا ہے۔۔اور اس کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔۔۔اور اس نے منہ بسورتے ہوا کہا۔۔۔۔"آجومانی شیرو ہئیو ، مانی ہمدرائیو [ مجھے بہت برا لگ رہا ہے، بہت تھک گئی ہوں کام کرتے کرتے"۔۔۔۔
"When we sit inside warm, there can be someone dying cold" [A.B. Saim]
میں سمجھ گیا کہ وہ ٹھنڈے کا نہیں۔ اچھے یا برے کا پوچھ رہی تھی۔۔ مگر ساتھ ہی میں ایک اور حقیقت بھی سمجھ آئی زندگی کی۔۔۔۔ وہ یہ کہ ظاہرا یا عموما جو موسم یا مظہر خوشی کا استعارہ بنا لیا جاتا ہے، وہ سب کے لئے ویسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ برفیلے پہاڑوں پر لوگ ہنی مون منانے جاتے ہیں، جب کی سردی سے تنگ وہاں کے باسی دیہاڑیاں لگانے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔۔ بارش میں منچلے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جبکہ ٹھیلوں والے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے زیرِتعمیر پلوں کے نیچے جا کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔ کسان ہاتھ اٹھا اٹھا کر بارش مانگتا ہے اور مزدور دیہاڑی کے خوف سے بادلوں کو کوستا رہتا ہے۔۔۔۔ پختہ عمارتیں موسموں میں اپنے رنگوں کو نہلاتی ہیں ، جبکہ کچے مکان اپنی بنیادوں کے لرزنے سے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔۔۔ 
مظاہرِ فطرت اپنے طے کردہ دائروں میں متحرک رہتے ہیں،  اور انسان اپنی ذات اور صفات کے زیرِاثر ان سے محظوظ یا خائف رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی دن کے اجالوں سے زندگی کا سورج تراشتا ہے اور کوئی رات کے اندھیروں میں دیپ جلا کر روح کا چاند روشن کرتا ہے۔۔۔کسی کو بہاروں میں چہچہاتے پرندے سکون دیتے ہیں اور کسی کو خزاں رسیدہ پتوں میں زندگی کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔ کہیں برف کی پھسلتی ہوئی سانسوں میں خوشی اپنا رنگ جماتی ہے اور کہیں سورج کی ایک کرن سمیٹنے کے لئے آنکھیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


خدا نے جہاں مظاہرِ فطرت کو کثیرالنوع بنایا ، وہیں انسان، حیوان اور چرند و پرند
 کو طرح طرح کی خوش طبعی نواز دی۔۔۔۔ پرندوں کی مثال لے لیجئے ، تلور، لالیاں، بٹیر  پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقوں کا وہ حسن ہیں جو غول در غول گرمیوں کا تہوار منانے نکل آتے ہیں۔ جبکہ مرغابیاں انہیں علاقوں میں موسمِ سرما سے پہلے نظر بھی نہیں آتیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ، کہ سردی کا عشق ہے ان کی ذات میں ، جبکہ وہ بے چاریاں تو سربیا کی 
سردی سے تنگ آ کر یہاں پناہ لئے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
"Drive your life happily but not crazily. "    [[A.B. Saim]]

انسان اور حیوان میں بس یہِی فرق ہے۔۔۔۔محسوسات کا فرق۔۔۔ انسان اس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں ، جب تک اس کا علم اور عمل موسموں اور لمحاتی کیفیتوں سے آذاد ہو کر حقیقت کے رازوں سے آشنائی نہیں اختیار کر لیتا۔۔۔۔ عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا اس کی بڑی شرطیں ہیں۔۔۔۔۔ جو خدا کو نہیں مانتے وہ بھی عیش اور طیش میں خدائی اور اس کے اندر کے موسموں کا ادراک کر پائیں تو انسان کی تعریف پر صادق ہیں۔۔ وگرنہ خدا پر ایمان بھی ایک جزو ہے اس کے رازوں کا، کُل نہیں۔۔۔۔۔۔
انسان میں یہ سلیقہ ہونا چاہیئے کہ وہ برف پڑتی دیکھ کر چڑیوں کے گھونسلے کا بھی سوچے اور بارش کے بادل چڑھتے دیکھ کر اسے بھوکے مزدور کا خیال گھیرے۔۔۔۔گرمیاں آنے سے قبل اسے اے سی کی گیس ری فلنگ کا خیال آئے مگر اس سے پہلے آفس کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار کا خیال آنا چاہیئے جس کا سر دھوپ سے بھی زیادہ سفید ہو چکا ہو۔۔۔۔سردیوں میں گرم گرم جلیبیوں کا سن کر منہ میں پانی آنا چاہیئے، مگر جلیبیوں والے کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں بھی سردی کے معنی تلاش کرنے چاہیئں۔۔۔ 
بارش میں کوٹھی کے پینٹ کے متاثر ہونے کا خیال بھی درست ہے، مگر سرونٹ کوارٹر کی سالوں پرانی چھت کے ٹپکنے کا اندیشہ بھی تو ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ عید پر بچوں کو نئے کپڑے، کھلونے اور غبارے لے کر دینے کی تو کیا ہی بات ہے، مگر اولڈ ہوم میں پڑے بوڑھے لاوارثوں کو عید ملنے بھی تو جانا چاہیئے، ۱۴ اگست کو سائلنسر اتار کر سڑکوں پر نکل بھی آئیں تو، کم سے کم اسپتال کے پاس تو ریس نہیں دینی چاہیئے، ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی انسانیت ہے ، کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کے غم کا احساس رہ جائے۔۔ اپنی آسانیوں میں دوسروں کی تکالیف کا کم سے کم خیال ہی آجائے تو ہم انسان کہلانے کے حق دار ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ برسات کی شاموں میں مینڈک بھی ٹرٹراتے ہیں اور بارش کے بعد لاکھوں ٹِڈیاں بھی خوشی میں لہراتی پھرتی ہیں۔۔۔۔مگر وہ اشرف المخوقات نہیں کہلاتے، حیوان ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔"

[[ مضمون از برف برف چہرے: عبدالباسط صائم]]

Monday, October 29, 2012

طفل سنی

طفل سنی


Writer: AB Saim
کہتے ہیں زندگی سب سے بڑی استاد ہے ، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو شخص بے استاد ہو ، زندگی کی ڈگر پر چلنا وہ بھی سیکھ ہی  جاتا ہے ۔مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ منزل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں، دیر سے پہنچتا ہے یا سویر سے۔۔ میں نے اکثر کہا کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ بستے ہیں ، ایک وہ جو نصیحت سے سیکھتے ہیں اور ایک وہ جو اذیت سے ۔۔" مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے بیٹے سے سبق سن رہا تھا، "الف سے انار" ۔۔۔اور وہ اپنی میاں مٹھو والی آواز میں میرے پیچھے پیچھے دوہرا رہا تھا۔۔ پھرمیں نے اس سے کہا،" الف سے امرود"۔ ۔ مگر وہ نہیں بولا، پہلے تو حیران پریشان ہو کر مجھے دیکھنے لگا ۔۔ میں نے پھر دوہرایا تو مجھ سے بولا۔۔ الف سے انار ہوتا ہے ۔۔ میں ہنس دیا اور کہا کہ بیٹا، الف سے امرود بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ بولا " کہاں ہوتا ہے؟" تو میں جنجھلا سا گیا ۔۔۔
لیکن سمجھانے کی غرض سے میں نے موبائل انٹرنیٹ آن کیا اور اسے امرود دکھانے لگا۔۔۔۔امرود دیکھ کر اسے بھوک لگ گئی اور اس جناب نے امرود کھانے کی ضد شروع کردی۔۔ بہر کیف میں نے اسے بازار سے امرود لا کر دئیےاور آئندہ کے لئے اس کا سبق اس کی ماں پر چھوڑ دیا۔۔

اس سے اگلے دن ایک ایسا چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔۔۔ میں وہی بات آج بتانا چا ہتا ہوں۔۔۔ میں آفس سے واپس آیا تو میرا بیٹا جو کہ ابھی تین سے چار سال کے درمیان کا ہے، میرا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا۔۔" بابا، آپ کو سبق نہیں آتا، اور آپکی وجہ سے مجھے ٹیچر سے مار پڑی۔۔" میں نے وجہ پوچھی تو انار اور امرود کا چکر نکلا۔۔ اس نے شاید ٹیچر کو بھی الف انار کی بجائے الف امرود سنایا تھا جو کہ کتاب میں نہیں تھا۔۔۔مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ایک فکری دریافت بھی۔۔۔۔
آج کے علمی معاشرے میں ہم میں سے اکثر افراد انفرادی و اجتماعی حیثیت میں الف انار کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ بات مذہبی فکر کی ہو، علاقائی پہچان کی ، تحقیقی میدان کی یا قومیت کی۔۔ ہم اپنے علم، ذات، ، مذہب ، فکر، فقر اور صلاحیت کو الف انار بنا چکے ہیں، اور ہم الف امرود سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔۔ ہماری فکر موروثی ہے، ہمارا فقر خاندانی ہے، ہماری قومیت پیدائشی ہے اور ہمارا علم حادثاتی۔۔ ہم میں اے اکثر اس لئے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے۔۔ ہم سنی شیعہ وہابی دیوبندی اس لئے ہیں ، کیونکہ یہ ہماری موروثی جائیداد ہے اور گھٹی میں ہمیں وددیعت ہو گئی، ہم الف انار والے لوگ ہیں ، ہمارے یہاں الف سے امرود بنتا ہی نہیں۔۔ گردو پیش میں دیکھ لیجئے آپ کو موروثی عا لم ملیں گے، اور موروثی جاہل۔۔۔کوئی خواہ کسی فرقے، مکتبہِ فکر یا فقیری سلسلے سے تعلق رکھتا ہو ، کوئی بھی قومیت یا وطنیت رکھتا ہو، اس نے کبھی الف انار سے آگے کا سبق سوچا ہی نہیں۔۔۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم جو ہیں، وہ کیوں ہیں اور ہم جو نہیں ہیں وہ کیوں نہیں ہیں۔۔





 ہمیں علم کے ایک ایسے کنویں میں بند کر دیا جاتا ہے یا ہم خود ہی ایس کنویں میں آگرتے ہیں، جہاں 
ہمیں اپنی ٹرٹراہٹ کے علاوہ اور کوئی آواز کان نہیں پڑتی اور ہم کہتے ہیں سبحان اللہ۔۔۔ ہمارے علاوہ دنیا میں ہے کون۔۔ کون سامذہب، فرقہ جماعت ، لسانی یا علاقائی گروہ ہے جو ہم سے بہتر ہو۔۔ یہ وہ سوچ ہے جو الف سے انار تک ختم ہو جاتی ہے ، الف سے اگر انسان "اقراء" سیکھ لے تو سچ جانئیے،یہ الف اسے امرود، انگور، انسان حتٰی کہ اللہ تک لے جائے ، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ دنیا میں اذیت اور نصیحت سے سیکھنے والے دونوں طرح کے ہی لوگ اور معاشرے ہوا کرتے ہیں اور ہم نے اس وقت اپنی انفرادی اور اجتماعی روش سے پوری طرح اذیت سے سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
میں جب یونیورسٹی میں پڑھایا کرتا تھا، تو بہت سی طلباء تنظیموں کے کارکنان سے بادلِ ناخواستہ سامنا ہوتا رہتا تھا میں ایک لکھاری ہوں اور سیاست پر لکھنا مجھے خاص مرغوب نہیں مگر کیا کیجئے کہ سیاست اور علم کے میدانوں میں کوئی دیوار ہی نہیں چھوڑی جہل نے ،۔سیاست کے میدان میں بھی مجھے حالتِ زار الگ نظر نہیں آئی، دکھ ہوا کہ سیاسی خداوںن اور ان کے کارندوں  کی الف بھی انار پر جا کر رک گئی ہے، کسی بھی سیاسی گروہ کو اٹھا لیجئے ۔انہیں تول لیئجیے ، بڑی بات ہو گی اگر وہ اپنی پارٹی کے منشور سے واقف ہوں اور یہ تو معجزہ ہی ہو گا کہ ان میں کوئی دوسری پارٹیوں کے سیاسی منشور ، ان کی کارکردگی یا لائحہ عمل سے آگاہ ہو۔۔آپ کو  کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو الف سے انار بتا سکتے ہوں، مگر جو الف سے اقراء بتائیں ،تعلیمی اداروں میں بھی نہیں ملیں گے۔۔۔۔




ایک تحقیق کے مطابق انسان اپنے علم کا ستر فیصد دوسروں کو سن کر حاصل کرتا ہے، ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہم تمام تر علمی میدانوں اور عملی محاذوں پر کمالِ روادارِی کا مظاہرہ کریں ، حصولِ علم کے لئے اپنی آنکھ کان اور دل کھولے رکھیں اور فرقہ و جماعت،رنگ و نسل، ملک و ملت اور ذات برادری کی موروثی بیماری سے نجات پا کر الف سے اقراء کا سبق پڑھیں ۔۔ اور ایسی طفل سنی کا مظاہرہ مت کریں، جس میں آدمی کا صرف قد بڑا ہوتا ہے علم نہیں۔۔۔۔ یہی وہ راز ہے جو خودی کا بیج بوتا ہے اور جس سے انسان کو  اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔۔۔ایسا علم کوش  انسان کبھی الف سے انار تک نہیں رکتا، وہ الف سے امرود بھی سیکھتا ہے، اقراء بھی، الف سے انسان بھی اور الف سے اللہ بھی۔۔۔
ذات کی اس تعمیر ہی سے وہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جو تعصب اور خود پرستی کی دھند سے لڑنا سکھاتی ہے،۔۔۔۔ ایسے تمام طلباء جب اسکول جاتے ہیں تو اپنی ٹیچرکو الف سے انار بھی پڑھ کر سناتے ہیں اور الف سے امرود کا بھی انہیں پتا "ہوتا ہے۔۔۔۔۔دراصل یہی وہ اقبال رحمھم اللہ کے سپوت ہیں جن کے لئےاقبال نے" جوانوں کو پیروں کا استاد کر" کی دعا کی تھی۔۔۔۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو الف سے انار تک رک  گیا، اور جس کی کتاب میں الف سے امرود ہو ہی نہیں ، نہ ہی اسے الف سے اقراء کا پتاہو،وہ شخص نہ تو الف سے انگور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ الف استاد سے ہوتا ہوا اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, October 22, 2012

ادبی بے ادبی

ادبی بے ادبی

زندگی خوشی اور غمی کا ایک خوشنما امتزاج ہے،۔۔ غم نہ ہوں تو خوشیاں اپنی رونق کھو بیٹھیں ۔۔ اور خوشیاں نہ ہوں تو انسان غم کی دھارا میں اپنا آپ لٹا بیٹھے۔ مگر غم اور خوشی منانے کا اپنا اپنا قرینہ ہوتا ہے ، جسے آکتیار کئے بنا نہ تو خوشی خوشی رہتی ہے اور نہ غم زندگی میں اپنی وجودیت کا ثمر لانے میں کامیاب ہوتا ہے
نکتے کی بات کرتا ہوں۔ خوشی منانے کا سلیقہ یہ ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی خوش ہوں ۔ اور غم نبھانے کا ڈھنگ یہ کہ کوئی دوسرا اس غم سے مغموم نہ ہو۔۔ ذرا سی معاشرتی حقیقت ہے، مگر اس کو پسِ پشت ڈال کر ہم جن فتنہ آشوب برائیوں کا شکار ہیں ، ان کا تذکرہ چھیڑنا مقصود ہے۔


میں اپنے بچوں [ بتاتا چلوں کہ میں ہمیشہ سے اپنے اسٹوڈنٹس کو بچو کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہوں] کو بارہا کہتا آیا ہوں کہ  خوشیاں منانے میں کسی کو غم مت دینا، وگرنہ غم کے رستوں پر بے یار رہ جاو گے۔۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔۔ایک کالج یونیورسٹی کے طلباء ہی نہیں ، ہم سب نے معاشرتی طور پر ایسے بے ڈھنگے انداز میں خوشیاں خریدنا شروع کر دی ہیں کہ بازاری عورتیں بھی دیکھیں،  خود کو پاکباز گردا نیں۔۔۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے، کہ سڑک کنارے کسی کو پھسلتا دیکھ کر ہماری ہنسی کیوں نکل جاتی ہے۔۔ کسی بچے کو فٹبال جا لگے اور وہ زمین پر جا گرے تو ہمارے قہقہے کیوں نہیں رکتے۔۔۔۔ زیادہ چوٹ لگنے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔ مگر تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے ناں۔۔۔اور یوں بھی اپنا بچہ گرا ہو تو کون ہنستا ہے۔۔ 
دراصل ہم خوشیاں منانے کا سلیقہ بھول گئے ہیں۔۔ ہماری خوشی سے دوسرے کو بھلے دکھ ملے، ہمیں فکر نہیں، اور یہیں سے دکھوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس سے معاشرے بے حس ہو جایا کرتے ہیں۔۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں بنیادی طور پر خوش ہونے اور خوش رہنے میں فرق ہی نہیں سمجھایا جاتا۔۔۔۔ہم خوش رہنے کی بجائے خوش ہونے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں، اور المیہ یہ کہ دوسروں کو خوش کئے بنا خوش ہونے کی تگ و دو میں دکھوں کی اتنی بڑی فصیلیں کھڑی کر لیتے ہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو جیسے ہماری آنگن میں اتر ہی نہیں پاتیں۔۔






ہماری فہم میں ایک بنیادی نکتے کی غیر موجودگی اس سارے خرابے کا سبب ہے ۔ اور وہ یہی کہ خوشی کو خوشی کیسے رکھا جائے۔۔ دیکھیں ، ہم نے ایک لفظ پڑھا۔۔ " مذاق" اور یہ بھی پڑھا، کہ مزاق کیا جاتا ہے،  بنایا بھی جاتا ہے اور اڑایا بھی۔۔ مزاح کیا جاتا ہے بنایا یا اڑایا نہیں جاتا۔۔ دیکھنے میں سارے الفاظ ایک سے محاوراتی اثر کے حامل نظر آتے ہیں، مگر ایسا ہے نہیں۔۔۔ ناک سے اوپر تک باچھیں کھول کر ہنسے سے فرصت ملے تو فرق نظر آتا ہے۔۔ ایسا مزاح جو دل آزاری کا سبب نہ ہو، مزاق کرنے میں آتا ہے۔۔۔ جس سے مذاق کیا جائے اسے گراں گزرے تو اسے مزاق بنانا کہیں گے۔۔ جب کہ تکرار اور تسلسل کے ساتھ کسی کو گراں طبع مزاح سے کریدنا مزاق اڑانے  کے زمرے میں آتا ہے۔۔ جب معاشرے کی اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کی نجی مجالس ، عوامی فورم اور الیکٹرانک میڈیا پر مزاق کیا نہیں ، اڑایا جاتا ہے۔
ذرا گردوپیش کی چند مثالیں دیکھ لیجئے۔۔۔۔ " ماموں" ایک لفظ نہیں ایک رشتہ ہے ، ایک تقدس بھرا لفظ تھا، ہے نہیں۔۔۔آج مستعملِ عام مزاح کی بات کریں تو ماموں بنانا ، ابے ماموں ہے تو پورا۔۔۔ یہ جملے ان سنے نہیں مگر ان کی گہرائی میں موجود بے ادبی اب دیکھی ضرور ہے۔۔۔۔دوسرا لفظ " سالا لے لیجئے۔۔۔ناراضگی درگزر میں قطعا گالی نہیں دے رہا۔۔ مگر خدا کے بندو۔۔۔ ایسے مزاح بنانے پر لعنت جو رشتوں کو بے تقدس کردے۔۔ بیوی کا بھائی ایک مقدس رشتہ تھا کبھی ، آج سالا بھی سالا کہلانا پسند نہیں کرتا۔۔۔سبب ہماری معاشرتی کج روی ، جس کو مذاق اڑانے کی لت پڑی ہے ، مذاق کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔۔ مگر جیسے میں نے پہلے کہا کہ خوشیاں منانے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے ، وہ نہ ہو تو مذاق معاشرے کی برائی بن جاتا ہے نہ کہ اچھائی اور خوبی۔۔۔۔ کبھی مزاق اور مزاح ہمارے معاشرے کی طاقت ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے تھکے ذہن کو تفریح فراہم کرتے اور خوشیاں بانٹنے کا سلیقہ فراہم کرتے۔۔۔۔مگر بے تربیتی کے اس دور میں ہم " جغت" دریافت کرنے میں تو کامیاب رہے مگر زبان دانوں کی قبروں پر چراغ جلانا بھول گئے۔۔ اب ہماری ہنسی دوسرے کے مزاق سے شروع ہوتی ہے۔۔ کبھی ہم دائیں بیٹھے شخص کی لمبی ناک کا مذاق اڑاتے ہیں اور بارہا اور با اہتمام اڑاتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہیں بائیں بیٹھے دوست کی چھوٹی ناک کا مزاق اڑاتے ہیں۔۔۔سوچے بنا کہ خدا کی تخلیق پر حرف دراز کرنے کو مزاق نہیں ۔ توہین کہا جاتا ہے۔۔۔مگر خیر۔۔ ہم خدا دوست اور کہاں ہیں کہ اتنے باریک بیں بنیں۔۔۔سو کسی کی ماں کو گھسیٹ لا و مزاق میں کسی کے باپ کو۔۔۔ خاندانوں پر مٹی کچرے کی بو پھینک کر قہقہہ لگا لو ، یا سندھی پٹھان سکھ کے کپڑے اتار لو۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے ، مقصد تو خوش ہونا ہے ناں۔۔۔تو ٹھیک ہی ہو گا۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہنسے سے زندگی دراز ہوتی ہے، مگر خدا کی قسم جن لوازمات کے ساتھ ہم ہنستے ہیں اپنی زندگی بھی داو پر لگاتے ہیں اور دوسروں کا خون جلا کر ان کے دن بھی کم کرتے ہیں۔۔۔۔
یقین نہیں آتا تو دوستوں کی ان محفلوں کا زکر اخباروں میں پڑھ لیجئے جو ہنسی مزاق سے شروع ہو کر لڑائی جھگڑے اور بعض اوقات قتل و غارت پر ختم ہوتے ہیں۔۔۔
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ مزاح اور مذاق میں فرق ہے ، اور مذاق کے بھی تین درجے ہیں ۔۔ اگر ہم یونہی آخری درجے کی خوشیاں تراشتے رہے تو غموں کی اتنی بڑی دیوار کھڑی ہو جائیگی کہ ہم چاہ کر بھی اپنے بچوں سے معصومیت کی توقع نہیں رکھ پائیں گے۔۔۔۔ اور وہ گلی محلوں میں کہتے پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔" میرا باپ بنتا تھا سالا۔۔۔۔ماموں بنا دیا اس کو۔۔۔" اور ہم آپ اپنی تہذیب کی گندے انڈوں کو باہر گلی میں بھی پھینکنے لائق نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔

Tuesday, October 2, 2012

تھینک یو اُنھ یانگ


تھینک یو اُنھ یانگ

[ اندر باہر کے شور کی ایک کہانی]


M.A. Basit


میں کل رات کو کافی دیر سے سویا تھا، ارادہ تھا کہ چھٹی کا دن ہے تو سورج چڑھے ہی اٹھوں۔۔۔۔ مگر ایک تو ان دو کروڑ کورئین لوگوں نے جیسے میرے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے۔۔ صبح کی نماز کے بعد سویا ہی تھا، کہ فضا جنگی طیاروں کی کڑک دار آوازوں سے گونج اٹھی۔۔۔ پاکستان میں ہوتا تو سمجھتا کہ دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے یا پھر کسی اعلی سرکاری عہدے پر براجمان کسی بونے کو سلامی پیش کی جا رہی ہے۔۔۔ مگر معاملہ یہاں بر عکس تھا۔۔۔پانچ طیاروں کی ایک اور اسمبلی دھویں کے بادلوں کا پھول بناتی ہوئی گزری تو میری نظر خودبخود اس کھڑکی پر اٹک گئی، جہاں سے میں اکثر آدھی رات کے پورے چاند سے باتیں کرتا آیا ہوں۔۔۔۔۔


Korean Air Show: A festival of Skill and Professional Extreme
ہانیانگ یونیورسٹی کی ڈارمیٹری تھری اس حوالے سے بہت خوبصورت ہے کہ اس کے عقب میں ڈھلوانی کھیتوں کا ایک دلکش منظر موجود ہے ، جس سے کچھ اور دور سبزیلی چٹانیں، جن پر کوریائی سبزہ مستِ مسرت نظر آتا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو کھڑکی سے دمکتے چاند اور ڈوبتے سورج کی وہ جھلک بھی نظر آجاتی ہے جو ہم میں سے اکثر دیس کی خوشبودار مٹی پر جوان ہوتاچھوڑ آئے ہیں۔۔ خزاں کی رنگدار ادائیں اور برف کی سفید چادر تو اس سے بھی بدرجہا دلفریب نظر آتی ہے۔۔۔لیکن آج پہلی بار میں کھڑکی سے سر باہر نکال کر فضا میں کھو سا گیا تھا۔۔۔ ایک بڑا طیارہ زمین کے اتنے پاس سے ہو کے گزرا کہ جیسے اسے چوم کر گیا ہو۔۔۔۔۔۔ 
میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔میری نیند اڑ چکی تھی اور بوجھل آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح سوالوں کے بخارات
امڈ رہے تھے، جوذہن کا مطلع ابر آلود کرنے کے لئے کافی تھے۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران اس لئے تھا کہ جو قوم سڑک پر ہارن بجانے سے ڈر جاتی ہو, جن کے پاس جا کر ہلکا سا اونچا بول دو تو ان کی آنکھیں پتھرا جائیں۔۔۔وہ کیسے برداشت کر رہیں ہوں گے اس قدر شور۔۔۔۔ایسی گرجناک آواز۔۔۔۔۔
اور جب مجھے اس کا جواب پتا چلا تو میں پریشان ہو گیا۔۔۔۔۔اور اسی پریشانی نے میرے قلم کو بسترِ استراحت سے اٹھا کر، کام پر لگا دیا۔۔۔ مجھے ایک کورئین دوست اُنھ یانگ سے پتا چلا کہ ساتھ ہی ایک پریڈ ایوینیو میں کورئین افواج کا ائیر شو ہے جس میں وہ اپنی فضائی استعداد اور فنی مہارت کا عوامی مظاہرہ کر رہے ہیں، اُنھ یانگ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شو پورا ہفتہ جاری رہے گا۔۔۔۔

میں اور بھی پریشان ہوا، میری پریشانی کی دووجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ کہ پورا ہفتہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا پڑے گا جو میرے جیسے شب مزاج کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔کیونکہ رات تو ہوتی ہی دلِ آوارہِ شب کی ہے  یا پھر شب بیدار آنکھوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر میں تو اپنی پریشانی کا رونا رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری پریشانی مجھے کورین لوگوں کو سوچ کر ہوئی کہ ان کا کیا بنے گا۔۔۔یہ کیسے سہہ لیں گے۔۔۔۔اتنا شور۔۔۔پہلے خیال آیا کہ کانوں میں آئی فون کے ہیڈ فونز ڈال کر تو یہ بھاٹی گیٹ پر گھنٹوں نو نمبر ویگن کا انتظار بھی کر سکتے ہیں، مگر خیال آیا کہ رات کو تو رہے یہ گنگنم سٹائل کی روح پرور سر تال سننے سے۔۔۔۔۔جب کوئی جواب بن نہ پایا تو پھر اُنھ یانگ کو کاکائو میسیج کر ڈالا۔۔۔۔ جواب مزید پریشان کن تھا۔۔" ہمارے سر پر ہمارے دشمن  کا شور اس سے بھی زیادہ ہے، اس کی آواز کو مارنے کےلئے ہم ایسے کتنے ہی کڑک دار شور گلے  لگا سکتے ہیں۔۔۔"
اُنھ یانگ بھی مجھے میری زبان میں جواب دینے لگ چکا ہے۔۔۔یہ وہ جملہ ہے جو میں اّپ تک اور پھر آپ سے آگے جہاں تک ممکن ہوا،شئیر کرنے آیا ہوں۔۔۔۔


Pakistan Air Festival 2002: An Event of Patriotism and Skill
میں پاکستان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے چہروں پر جھنڈے پینٹ کروا کر چھ ستمبر کی اسلحہ نمائشیں دیکھیں ہیں۔۔۔ ریل گاڑی پر ٹینک جاتے دیکھ کر سلییوٹ کئے ہیں ، اور ہوا میں اڑتے طیارے دیکھ کر چھت پرکڑی دھوپ میں گھنٹوں گزارے ہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ چھ ستمبر کو یومِ دفاع کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ستمبر کا ایک پورا ہفتہ بری، بحری اور فضائی افواج کے ترانے نہ صرف گلی گلی سنے جاسکتے تھے بلکہ، پاکستان کے اکلوتے ٹی وی چینل پی ٹی وی اور بعدازاں پی ٹی وی ٹو کے چہرے پر بھی قومی و ملی محبت کے سُر بکھرے رہتے تھے۔۔۔ مجھے تو ۲۳ مارچ کی وہ پریڈ بھی یاد ہے جس میں، افواجِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اور چاروں صوبوں کے ثقافتی ڈیمو پریڈ میں شرکت کرتے تھے جن کے بیک گراونڈ میں لوک گیت، اسٹیج پر لوک فنکار اور سامنے سبز ہلالی پرچم نظر آیا کرتا تھا۔۔۔۔اُنھ یانگ کی بات ٹھیک تھی، ، فضا میں اڑتے ہوئےطیاروں کی آواز تو اس کے دشمنوں کے لئے شور ہے۔۔۔اس کے ملک کے باسیوں کےلئے تھوڑی۔۔۔مگر میری پریشانی اور بھی پیچیدہ تھی۔۔ چارسال قبل میں نے اپنے اسٹوڈنٹس سے کلاس میں پوچھا تھا، کل چھ ستمبر کو کس چیز کی چھٹی ہے؟ تو بی ایس سی انجینئرنگ کے اسٹودنٹس کے پاس اس سے آگے کوئی جواب نہیں تھا، کہ بس کل چھٹی ہے۔۔۔ کوئی قومی دن ہے شاید۔۔۔یہ" شاید" ہی میری پریشانی ہے  جو میری آج کی نسل کے رگ وپے میں رچ گیا ہے یا رچا دیا گیا ہے۔۔۔۔بیسیوں چینل وجود میں آگئے ، انفارمیشن تیکنالوجی کے بازار نے تجارت کے ریکارڈ قائم کر دئیے مگرآئندہ نسل کو نہ تو اقبال رحمہ اللہ کا یومِ وفات یاد ہے  اور نہ قائدِ اعظم رحمہ اللہ کے والد کا نام۔۔۔۔میں یہاں کسی سیاسی عسکری یا فلسفیائی پیرائے کو قلم بند نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وقت کے اس دوراہے پر نہ تو ٹرین پر ٹینک جاتے دیکھ کرکوئی سلیوٹ مارتا ہے اور نہ ہی کوئی گھنٹوں چھت پر ٹھہر کر فوجی طیاروں کا شور محسوس کرنے کی طلب رکھتا ہے، ہم تو بد قسمتی سے اس موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں ہماری عقل ہماری زبان سے بڑی گالیاں بکتی ہے اور ہماری حب الوطنی ہمارِ خود غرضی کے آگے روز ننگی ہوتی ہے۔۔۔فوج کا نام لو تو جمہوری ناخداوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، جمہوریت کو سلام کرو تو میڈیا کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے، میڈیا کو خراجِ عقیدت پیش کرو تو ملائے حرم کا ایمان جاگ اٹھتا ہے، اور منبر و مسجد کی ثنا لکھو تومذہبِ جدت پسندی کپڑوں سے باہر نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میں اپنی بات کو پاکستان تک رکھتا ہوں بس پاکستان تک۔۔۔اور اپنی پریشانی آپ سے شئیر کرتا ہوں۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ  کہاں ہے وہ شور جو طبع پر گراں نہیں گزرتا۔۔۔جو ننھے بچوں کو حمیت کا درس دیتا یے۔۔۔ جو ہوا میں بل کھاتے ہوئے طیاروں کی فریکوینسی پر شاہینی صلاحیتوں کو ٹیون کرتا ہے ، کہاں ہیں وہ روایات  جو عوام اور افواج کے درمیان ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ کو فروغ دیتی ہیں، کہاں ہیں وہ اسٹیج جن پر قومی رنگوں میں علاقائی رقص کئے جاتے ہیں ، کہاں ہیں وہ موسیقار جو سات زبانوں میں ایک ترانہ لکھتے تھے، کہاں ہیں قوم کے وہ بچےجو اپنی سائیکل کے ہینڈل پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر دھوپ میں بھی گاتے پھرتے تھے۔۔
میں اسی المیے کے سبب پریشان ہوں ، کہ قصدا یا غیر قصدا ہمارے معاشرتی نظام میں سے ان تمام چھوٹے چھوٹے عناصر کو نابود کردیا گیا ہے، جس سے ملی یگانگت، قومی تشخص، مذہبی رواداری ، صوبائی خودداری، نظریاتی اساسیت اور عسکری جذبات کی بیداری کو فروغ ملا کرتا تھا، پالیسی ساز ادارے جانے کون سی آڑھت میں مصروف ہیں، کہ ان کی توجہ آنے والی نسل اور ان کے مفاد پر پڑتی ہی نہیں۔۔۔۔ایسی اندھی گنگی بہری نسل پیدا کی جا رہی ہے جن کا اندر ہی شور ہے، کنفیوژن کا شور۔۔۔بے رہروی کا شور۔۔۔۔بے علمی کا شور۔۔۔۔
مائیکرو بائیو چپس سنٹر کے پہلو میں ساوتھ کوریا کی افواج کا یہ عملی مظاہرہ چند روز اور جاری رہے گا، اور جانے میں رات کے شور سے سمجھوتا کرتا ہوں یا دن کے شور سے۔۔۔۔دن میں سوتا ہوں یا رات مجھے پناہ دیتی ہے، یہ سوال الگ ۔۔مگر مجھے یقین ہے اُنھ یانگ کو نیند اپنے وقت پر ہی آجائیگی، کیونکہ اس کے لئے یہ شور وہ نعرہِ مستانہ ہے جو ہنگامہِ فردا کا اعلان ہے اور جس سے لوگ سو جاتے ہیں ، مگر ان کا قومی ضمیر اور تشخص جاگتا رہتا ہے۔۔ 


Pakistani Soldiers Showing their Skills
مجھے لگتا ہے، کہ مستنصر حسین تارڑ کے سارے "بی بے" بچوں کو اب اپنے اندر کے شور کو یاد کرکے شور کرنا ہوگا اور اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ملی، معاشرتی اور قومی شناخت اجاگر کرنا ہو گی۔۔ ورنہ اندر اور باہر کا شور مل کر ہمیں بے نسل کر دے گا، اور ہمارے بچے ہم سے آکر پاکستان کا مطلب پوچھیں گے ، اور شاید ہمارے پاس انہیں دکھانے کے لئے ایک پرانے سے نقشے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, September 8, 2012

امن اور آشتی


امن اور آشتی
( The story of now and then)


Author: Abdul Basit Saim
ab_saim@hotmail.com
+82-10-2945-4810

کل یہاں جنوبی کوریا کے ایک تفریحی مقام پر جانے کا اتفاق
ہوا۔ ہان یانگ یونیورسٹی سے کم و بیش دو گھنٹے کی مسافت پر واقع یوای نارو کا یہ پوائنٹ دنیا  میں جنت نہ صحیح ،[ کہ یہ میرے عقیدے سے متصادم تشبیہہ ہے]، لیکن ایک سحرانگیز رومانوی اور روح پرور مقام ضرور ہے۔۔دریائے ہان کے کنارے کوریائی سبزہ اور اس میں ہوا سے اٹھکیلیاں کرتے پھول مخملی اداوں کا ہر وہ گیت گا رہے تھے ، جو ہم بچپن میں پرستان کی کہانیوں اور کوہ قاف کے افسانوں میں

پڑھتے آئے ہیں۔  سورج  مغرب میں واقع سئیول ٹاور سے گلے مل رہا تھا اور شام
 دھیمے قدموں سے ننگے پاوں دریا کے پانی میں اتر رہی تھی۔۔۔۔

بلند وبالا عمارات اور جھلملاتی روشنیوں سے آراستہ سڑکیں اس تفریح گاہ کے
 دونوں طرف چاک و چوبند پہرے داروں کی طرح استادہ موجود تھیں۔۔۔
میں نے اور دیگر دوستوں نے بیٹھنے کے لئے جو جگہ منتخب کی، ، بلکہ سچ کہئے تو جو جگہ ہمیں بیٹھنے کو ملی، اس کے دائیں اور بائیں دونوں جانب خاموشی کی دھن پر جگمگاتے دریا کے سینے پر پل تھے، جو تعمیراتی اسلوب کی الگ کہانی ہیں۔۔۔۔




مگر میں یہاں کچھ اور کہنا چاہتا ہوں۔۔۔ننھے منے بچے، چلتے پھرتے بوڑھے، سائکلنگ ٹریک پر لہراتے نوجوان، مخملی گھاس کی آغوش میں حسبِ طلب اٹھکیلیاں کرتے رومانوی جوڑے، فضا میں دھن بکھیرتے ہوئے موسیقی ساز اور  چند ایک نشے میں دھت گرتے پڑتے لوگ، میری نظروں میں گڑ رہے تھے۔۔


 میں ان لوگوں میں سے ہوں ، جو ملک، مذہب اور ماں باپ کو گالی دینا گناہ سمجھتے ہیں، مجھے رہ رہ کر خون آلود سڑکیں یاد آرہیں تھیں، جو میرے ملک کا مقدر بن چکی ہیں۔۔۔مجھے ابھی ایک ہی ہفتہ ہوا ہے، پیارے پاکستان سے آئے ہوئے۔۔۔ میں دیکھ کر آیا ہوں کہ ہم نے جو ملک خون بہا کر حاصل کیا تھا، وہاں اب بھی خون بہہ رہا ہے۔۔۔مگر اس بار نہ سکھ حملہ آور ہیں نہ ہندو شر انگیز۔۔۔۔


منٹو پارک لاہور ہو، شاہ شمس پارک ملتان یا لال سوہانرا بہاولپور۔۔۔منظر اپنی موت کے منتظر نظر آتے ہیں۔۔۔ خوف بچوں کی شرارتوں کا خون چوس رہا ہے اورڈر بارود کی بو کی طرح گلیوں ، ، چوراہوں سڑکوں میں اڑتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔۔
آہ ۔۔۔ہم نہ اسلامی بن سکے، نہ فلاحی، نہ جمہوری۔۔۔۔ان تمام مسائل اور حقائق کی
بحث سے قطع نظر ، میں امید کی کرنیں ڈھونڈتا رہا، جو کبھی مرتی نہیں ہیں۔۔۔۔۔
امید کی ایک کرن تو ابھی ابھی جنوبی کوریا کی فضائی حدود سے اتر کر آئی ہے۔۔۔۔ کم و بیش ستر سے زیادہ فرزندانِ مملکت  حصول تعلیم کی خاطر یہاں آئے۔۔۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا نہیں ان غریب کسانوں، مزدوروں، ہاریوں اور دہقانوں کے سکالرشپ پر، جن کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو عید کہلاتی ہے۔۔۔
اس پاکستان کے بیٹے ہیں ہم ، جس کے سینے پر دہشت گردی ناسور بن کر پنپ رہی ہے۔۔۔ جس کے کچے گھروں کو سیلاب کا سانپ ہر ساون میں ڈس جاتا ہے۔۔۔۔جس کی چٹانوں پر اب بھی زلزلہ زدہ مکانات کل کی آس لگائے زندہ ہیں۔۔۔
میں بھی آج کی دنیا میں جینا چاہتا ہوں، مگر مجھے تو نہیں بھولتا، کہ مسجدوں ، بازاراوں اور چوکیوں پر دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کے پچاس پچاس ہزار کے چیک ابھی تک کیش نہیں ہو سکے۔۔۔۔مرنے والوں کی بن بیاہی بیٹیوں کو لاکھ روپے کی امداد تک نہیں ملی۔۔۔۔۔ 

تصویر کا دوسرا رخ بھی ہو گا۔۔۔ مگر مری امید کی کرن مجھے عزیز ہے۔۔۔ میں تو سوچتا ہوں کہ یہ سپوت گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ کماو پتر بن کر۔۔۔ الیکٹرانکس کی ایجادات ان کے ہاتھوں میں ہوں گی۔۔کیمِائی تجربات و تجزیات کی دنیا ان کے پاوں چھو کر ان سے ملے گی۔۔ ادویہ سازی کے میناراتی تصور ان کے دم سے زندہ ہو گیں۔۔ معاشرتی، معاشی ، ثقافتی و نفسیاتی فلسفوں کی کتابیں ان کے ہاتھوں پر بیعت کریں گی۔۔  یقینا طبی و طبعی ، نباتاتی و جماداتی تکنیکی و میکانی کہکشاوں پر ان کے نام کے ستارے بھی ہوں گے۔۔۔۔ اور یہی وہ نقطہ ہو گا، جہاں سے وطن کی مرجھائی ہوئی آنکھوں میں زندگی کی کرنیں دوڑیں گی۔۔۔

مگر مجھے ایک خوف بھی ہے۔۔۔وہی جس کا ذکر اشفاق صاحب مرحوم کیا کرتے تھے، کہ جن قوموں سے علم چھن جائے، اس کے افراد غیر دنیا کی ترقی اور علمی استعداد سے مرعوب ہو کر اپنے ملک، مذہب اور گھر سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور ایسے افراد صحیح معنوں میں نابلد رہتے ہیں۔۔۔ 


یوای نارو کی خوبصورتی کی قسم۔۔ میں اپنے گھر سے کبھی نفرت نہیں کروں گا۔۔۔ اور میرے جیسے کئی آشفتہ سر ہوں گے، جو کرہ ارض کی خوبصورتیوں کے موتیوں کی مالا بنا کر اپنے گھر لوٹیں گے۔۔۔۔ جہاں بوڑھی مٹی مرتی ہوئی امیدیں لے کر منتظر ہے۔۔۔ جہاں لاکھوں یواینارو امن ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔جہاں راوی ، ستلج چناب ایک عمر سے اپنے کناروں پر مخملی گھاس کے منتظر ہیں اور جہاں شام محبت کی پازیب پہن کر جھلملاتے پانی میں اترنے کی خواہش میں بوڑھی ہوتی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ علم کی دولت سے مقام پانے والے یہ سپوت ، کماو پتر بن کر گھر لوٹیں گے۔۔۔اور دھرتی کا قرض نفع سمیت واپس لوٹائیں گے۔۔۔۔۔۔انشاء اللہ 

Monday, April 23, 2012

Saying HELLO to Spring......

 (A few Pictures and Comments by A.B. Saim )  

"Whenever green,I think Its YOU inside me,..........."


 "If your past is darkish, you can have a brighter contrast of your future."


 "If you can touch the flower's heart, U can touch the sky indeed."


 "I know I have NEW people to live with, But I have my eyes all through the seasons passed.."


 "Stars are in your eyes; not always in the skies.."


 "Comparing the Nature to Science, I always have a silent end......."


 "Looking a tree from a window is far less beautiful than looking at the same window through the same tree.."


 " Rigid in believes, wavy in moods and fragrant in relations is the man inside me.."



 " The nature invites us, but we are just passed and set at our cyclic positions..."


 "Even if you are not loved, You have no excuse to hate...."


 "Feeling you around is the only asset of mine in the hour of loneliness."


 "Those who are nearer to you are not always better for you..."


 " Feeling the LOVE is stronger than capturing the flower heart...."


 " Whenever lost in my dreams, I have a stary nite or a blossoming day.."


 "Determination is carved on ones face as a mark of victory.."


 " You can create love in your enemies, once you know what love is..."


" If you donot have leaves to offer your shade, offer your colors to the people"

 "The Life is Happiness and Sadness side by side."


 "If you can touch the flower's heart, U can touch the sky indeed." 


"A big smile can have a very smile reason." 


  "Even among-st the wildish realities, there are a few with colorful meanings..."


 "Even if you are not loved, You have no excuse to hate...."


 "Feeling you around is the only asset of mine in the hour of loneliness."


 "When you have full of blossoms, you have half to live...." 


" Whenever lost in my dreams, I have a stary nite or a blossoming day.."

>....................................................<