Monday, October 29, 2012

طفل سنی

طفل سنی


Writer: AB Saim
کہتے ہیں زندگی سب سے بڑی استاد ہے ، اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو شخص بے استاد ہو ، زندگی کی ڈگر پر چلنا وہ بھی سیکھ ہی  جاتا ہے ۔مگر یہ الگ بات ہے کہ وہ منزل تک پہنچ پاتا ہے یا نہیں، دیر سے پہنچتا ہے یا سویر سے۔۔ میں نے اکثر کہا کہ دنیا میں دو ہی طرح کے لوگ بستے ہیں ، ایک وہ جو نصیحت سے سیکھتے ہیں اور ایک وہ جو اذیت سے ۔۔" مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں اپنے بیٹے سے سبق سن رہا تھا، "الف سے انار" ۔۔۔اور وہ اپنی میاں مٹھو والی آواز میں میرے پیچھے پیچھے دوہرا رہا تھا۔۔ پھرمیں نے اس سے کہا،" الف سے امرود"۔ ۔ مگر وہ نہیں بولا، پہلے تو حیران پریشان ہو کر مجھے دیکھنے لگا ۔۔ میں نے پھر دوہرایا تو مجھ سے بولا۔۔ الف سے انار ہوتا ہے ۔۔ میں ہنس دیا اور کہا کہ بیٹا، الف سے امرود بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔وہ بولا " کہاں ہوتا ہے؟" تو میں جنجھلا سا گیا ۔۔۔
لیکن سمجھانے کی غرض سے میں نے موبائل انٹرنیٹ آن کیا اور اسے امرود دکھانے لگا۔۔۔۔امرود دیکھ کر اسے بھوک لگ گئی اور اس جناب نے امرود کھانے کی ضد شروع کردی۔۔ بہر کیف میں نے اسے بازار سے امرود لا کر دئیےاور آئندہ کے لئے اس کا سبق اس کی ماں پر چھوڑ دیا۔۔

اس سے اگلے دن ایک ایسا چھوٹا سا واقعہ ہوا جس نے مجھے ایک بہت بڑا سبق سکھایا۔۔۔ میں وہی بات آج بتانا چا ہتا ہوں۔۔۔ میں آفس سے واپس آیا تو میرا بیٹا جو کہ ابھی تین سے چار سال کے درمیان کا ہے، میرا انتظار کر رہا تھا، کہنے لگا۔۔" بابا، آپ کو سبق نہیں آتا، اور آپکی وجہ سے مجھے ٹیچر سے مار پڑی۔۔" میں نے وجہ پوچھی تو انار اور امرود کا چکر نکلا۔۔ اس نے شاید ٹیچر کو بھی الف انار کی بجائے الف امرود سنایا تھا جو کہ کتاب میں نہیں تھا۔۔۔مجھے شرمندگی بھی ہوئی اور ایک فکری دریافت بھی۔۔۔۔
آج کے علمی معاشرے میں ہم میں سے اکثر افراد انفرادی و اجتماعی حیثیت میں الف انار کا شکار ہو چکے ہیں۔۔ بات مذہبی فکر کی ہو، علاقائی پہچان کی ، تحقیقی میدان کی یا قومیت کی۔۔ ہم اپنے علم، ذات، ، مذہب ، فکر، فقر اور صلاحیت کو الف انار بنا چکے ہیں، اور ہم الف امرود سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔۔ ہماری فکر موروثی ہے، ہمارا فقر خاندانی ہے، ہماری قومیت پیدائشی ہے اور ہمارا علم حادثاتی۔۔ ہم میں اے اکثر اس لئے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان پیدا ہوئے۔۔ ہم سنی شیعہ وہابی دیوبندی اس لئے ہیں ، کیونکہ یہ ہماری موروثی جائیداد ہے اور گھٹی میں ہمیں وددیعت ہو گئی، ہم الف انار والے لوگ ہیں ، ہمارے یہاں الف سے امرود بنتا ہی نہیں۔۔ گردو پیش میں دیکھ لیجئے آپ کو موروثی عا لم ملیں گے، اور موروثی جاہل۔۔۔کوئی خواہ کسی فرقے، مکتبہِ فکر یا فقیری سلسلے سے تعلق رکھتا ہو ، کوئی بھی قومیت یا وطنیت رکھتا ہو، اس نے کبھی الف انار سے آگے کا سبق سوچا ہی نہیں۔۔۔ اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ہم نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ ہم جو ہیں، وہ کیوں ہیں اور ہم جو نہیں ہیں وہ کیوں نہیں ہیں۔۔





 ہمیں علم کے ایک ایسے کنویں میں بند کر دیا جاتا ہے یا ہم خود ہی ایس کنویں میں آگرتے ہیں، جہاں 
ہمیں اپنی ٹرٹراہٹ کے علاوہ اور کوئی آواز کان نہیں پڑتی اور ہم کہتے ہیں سبحان اللہ۔۔۔ ہمارے علاوہ دنیا میں ہے کون۔۔ کون سامذہب، فرقہ جماعت ، لسانی یا علاقائی گروہ ہے جو ہم سے بہتر ہو۔۔ یہ وہ سوچ ہے جو الف سے انار تک ختم ہو جاتی ہے ، الف سے اگر انسان "اقراء" سیکھ لے تو سچ جانئیے،یہ الف اسے امرود، انگور، انسان حتٰی کہ اللہ تک لے جائے ، مگر جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ دنیا میں اذیت اور نصیحت سے سیکھنے والے دونوں طرح کے ہی لوگ اور معاشرے ہوا کرتے ہیں اور ہم نے اس وقت اپنی انفرادی اور اجتماعی روش سے پوری طرح اذیت سے سیکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
میں جب یونیورسٹی میں پڑھایا کرتا تھا، تو بہت سی طلباء تنظیموں کے کارکنان سے بادلِ ناخواستہ سامنا ہوتا رہتا تھا میں ایک لکھاری ہوں اور سیاست پر لکھنا مجھے خاص مرغوب نہیں مگر کیا کیجئے کہ سیاست اور علم کے میدانوں میں کوئی دیوار ہی نہیں چھوڑی جہل نے ،۔سیاست کے میدان میں بھی مجھے حالتِ زار الگ نظر نہیں آئی، دکھ ہوا کہ سیاسی خداوںن اور ان کے کارندوں  کی الف بھی انار پر جا کر رک گئی ہے، کسی بھی سیاسی گروہ کو اٹھا لیجئے ۔انہیں تول لیئجیے ، بڑی بات ہو گی اگر وہ اپنی پارٹی کے منشور سے واقف ہوں اور یہ تو معجزہ ہی ہو گا کہ ان میں کوئی دوسری پارٹیوں کے سیاسی منشور ، ان کی کارکردگی یا لائحہ عمل سے آگاہ ہو۔۔آپ کو  کروڑوں لوگ مل جائیں گے جو الف سے انار بتا سکتے ہوں، مگر جو الف سے اقراء بتائیں ،تعلیمی اداروں میں بھی نہیں ملیں گے۔۔۔۔




ایک تحقیق کے مطابق انسان اپنے علم کا ستر فیصد دوسروں کو سن کر حاصل کرتا ہے، ضرورت اسی امر کی ہے کہ ہم تمام تر علمی میدانوں اور عملی محاذوں پر کمالِ روادارِی کا مظاہرہ کریں ، حصولِ علم کے لئے اپنی آنکھ کان اور دل کھولے رکھیں اور فرقہ و جماعت،رنگ و نسل، ملک و ملت اور ذات برادری کی موروثی بیماری سے نجات پا کر الف سے اقراء کا سبق پڑھیں ۔۔ اور ایسی طفل سنی کا مظاہرہ مت کریں، جس میں آدمی کا صرف قد بڑا ہوتا ہے علم نہیں۔۔۔۔ یہی وہ راز ہے جو خودی کا بیج بوتا ہے اور جس سے انسان کو  اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگتی ہے۔۔۔ایسا علم کوش  انسان کبھی الف سے انار تک نہیں رکتا، وہ الف سے امرود بھی سیکھتا ہے، اقراء بھی، الف سے انسان بھی اور الف سے اللہ بھی۔۔۔
ذات کی اس تعمیر ہی سے وہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جو تعصب اور خود پرستی کی دھند سے لڑنا سکھاتی ہے،۔۔۔۔ ایسے تمام طلباء جب اسکول جاتے ہیں تو اپنی ٹیچرکو الف سے انار بھی پڑھ کر سناتے ہیں اور الف سے امرود کا بھی انہیں پتا "ہوتا ہے۔۔۔۔۔دراصل یہی وہ اقبال رحمھم اللہ کے سپوت ہیں جن کے لئےاقبال نے" جوانوں کو پیروں کا استاد کر" کی دعا کی تھی۔۔۔۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ جو الف سے انار تک رک  گیا، اور جس کی کتاب میں الف سے امرود ہو ہی نہیں ، نہ ہی اسے الف سے اقراء کا پتاہو،وہ شخص نہ تو الف سے انگور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور نہ ہی وہ الف استاد سے ہوتا ہوا اللہ تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, October 22, 2012

ادبی بے ادبی

ادبی بے ادبی

زندگی خوشی اور غمی کا ایک خوشنما امتزاج ہے،۔۔ غم نہ ہوں تو خوشیاں اپنی رونق کھو بیٹھیں ۔۔ اور خوشیاں نہ ہوں تو انسان غم کی دھارا میں اپنا آپ لٹا بیٹھے۔ مگر غم اور خوشی منانے کا اپنا اپنا قرینہ ہوتا ہے ، جسے آکتیار کئے بنا نہ تو خوشی خوشی رہتی ہے اور نہ غم زندگی میں اپنی وجودیت کا ثمر لانے میں کامیاب ہوتا ہے
نکتے کی بات کرتا ہوں۔ خوشی منانے کا سلیقہ یہ ہے کہ اس سے دوسرے لوگ بھی خوش ہوں ۔ اور غم نبھانے کا ڈھنگ یہ کہ کوئی دوسرا اس غم سے مغموم نہ ہو۔۔ ذرا سی معاشرتی حقیقت ہے، مگر اس کو پسِ پشت ڈال کر ہم جن فتنہ آشوب برائیوں کا شکار ہیں ، ان کا تذکرہ چھیڑنا مقصود ہے۔


میں اپنے بچوں [ بتاتا چلوں کہ میں ہمیشہ سے اپنے اسٹوڈنٹس کو بچو کہہ کر ہی مخاطب کرتا ہوں] کو بارہا کہتا آیا ہوں کہ  خوشیاں منانے میں کسی کو غم مت دینا، وگرنہ غم کے رستوں پر بے یار رہ جاو گے۔۔ مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے ۔۔ایک کالج یونیورسٹی کے طلباء ہی نہیں ، ہم سب نے معاشرتی طور پر ایسے بے ڈھنگے انداز میں خوشیاں خریدنا شروع کر دی ہیں کہ بازاری عورتیں بھی دیکھیں،  خود کو پاکباز گردا نیں۔۔۔
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے، کہ سڑک کنارے کسی کو پھسلتا دیکھ کر ہماری ہنسی کیوں نکل جاتی ہے۔۔ کسی بچے کو فٹبال جا لگے اور وہ زمین پر جا گرے تو ہمارے قہقہے کیوں نہیں رکتے۔۔۔۔ زیادہ چوٹ لگنے کی بات نہیں کر رہا ۔۔۔ مگر تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے ناں۔۔۔اور یوں بھی اپنا بچہ گرا ہو تو کون ہنستا ہے۔۔ 
دراصل ہم خوشیاں منانے کا سلیقہ بھول گئے ہیں۔۔ ہماری خوشی سے دوسرے کو بھلے دکھ ملے، ہمیں فکر نہیں، اور یہیں سے دکھوں کا وہ سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس سے معاشرے بے حس ہو جایا کرتے ہیں۔۔
ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ہمیں بنیادی طور پر خوش ہونے اور خوش رہنے میں فرق ہی نہیں سمجھایا جاتا۔۔۔۔ہم خوش رہنے کی بجائے خوش ہونے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں، اور المیہ یہ کہ دوسروں کو خوش کئے بنا خوش ہونے کی تگ و دو میں دکھوں کی اتنی بڑی فصیلیں کھڑی کر لیتے ہیں کہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو جیسے ہماری آنگن میں اتر ہی نہیں پاتیں۔۔






ہماری فہم میں ایک بنیادی نکتے کی غیر موجودگی اس سارے خرابے کا سبب ہے ۔ اور وہ یہی کہ خوشی کو خوشی کیسے رکھا جائے۔۔ دیکھیں ، ہم نے ایک لفظ پڑھا۔۔ " مذاق" اور یہ بھی پڑھا، کہ مزاق کیا جاتا ہے،  بنایا بھی جاتا ہے اور اڑایا بھی۔۔ مزاح کیا جاتا ہے بنایا یا اڑایا نہیں جاتا۔۔ دیکھنے میں سارے الفاظ ایک سے محاوراتی اثر کے حامل نظر آتے ہیں، مگر ایسا ہے نہیں۔۔۔ ناک سے اوپر تک باچھیں کھول کر ہنسے سے فرصت ملے تو فرق نظر آتا ہے۔۔ ایسا مزاح جو دل آزاری کا سبب نہ ہو، مزاق کرنے میں آتا ہے۔۔۔ جس سے مذاق کیا جائے اسے گراں گزرے تو اسے مزاق بنانا کہیں گے۔۔ جب کہ تکرار اور تسلسل کے ساتھ کسی کو گراں طبع مزاح سے کریدنا مزاق اڑانے  کے زمرے میں آتا ہے۔۔ جب معاشرے کی اخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہونا شروع ہوتی ہیں تو ان کی نجی مجالس ، عوامی فورم اور الیکٹرانک میڈیا پر مزاق کیا نہیں ، اڑایا جاتا ہے۔
ذرا گردوپیش کی چند مثالیں دیکھ لیجئے۔۔۔۔ " ماموں" ایک لفظ نہیں ایک رشتہ ہے ، ایک تقدس بھرا لفظ تھا، ہے نہیں۔۔۔آج مستعملِ عام مزاح کی بات کریں تو ماموں بنانا ، ابے ماموں ہے تو پورا۔۔۔ یہ جملے ان سنے نہیں مگر ان کی گہرائی میں موجود بے ادبی اب دیکھی ضرور ہے۔۔۔۔دوسرا لفظ " سالا لے لیجئے۔۔۔ناراضگی درگزر میں قطعا گالی نہیں دے رہا۔۔ مگر خدا کے بندو۔۔۔ ایسے مزاح بنانے پر لعنت جو رشتوں کو بے تقدس کردے۔۔ بیوی کا بھائی ایک مقدس رشتہ تھا کبھی ، آج سالا بھی سالا کہلانا پسند نہیں کرتا۔۔۔سبب ہماری معاشرتی کج روی ، جس کو مذاق اڑانے کی لت پڑی ہے ، مذاق کرنے کا سلیقہ ہی نہیں۔۔ مگر جیسے میں نے پہلے کہا کہ خوشیاں منانے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے ، وہ نہ ہو تو مذاق معاشرے کی برائی بن جاتا ہے نہ کہ اچھائی اور خوبی۔۔۔۔ کبھی مزاق اور مزاح ہمارے معاشرے کی طاقت ہوا کرتے تھے جو دن بھر کے تھکے ذہن کو تفریح فراہم کرتے اور خوشیاں بانٹنے کا سلیقہ فراہم کرتے۔۔۔۔مگر بے تربیتی کے اس دور میں ہم " جغت" دریافت کرنے میں تو کامیاب رہے مگر زبان دانوں کی قبروں پر چراغ جلانا بھول گئے۔۔ اب ہماری ہنسی دوسرے کے مزاق سے شروع ہوتی ہے۔۔ کبھی ہم دائیں بیٹھے شخص کی لمبی ناک کا مذاق اڑاتے ہیں اور بارہا اور با اہتمام اڑاتے ہیں اور کچھ دیر بعد وہیں بائیں بیٹھے دوست کی چھوٹی ناک کا مزاق اڑاتے ہیں۔۔۔سوچے بنا کہ خدا کی تخلیق پر حرف دراز کرنے کو مزاق نہیں ۔ توہین کہا جاتا ہے۔۔۔مگر خیر۔۔ ہم خدا دوست اور کہاں ہیں کہ اتنے باریک بیں بنیں۔۔۔سو کسی کی ماں کو گھسیٹ لا و مزاق میں کسی کے باپ کو۔۔۔ خاندانوں پر مٹی کچرے کی بو پھینک کر قہقہہ لگا لو ، یا سندھی پٹھان سکھ کے کپڑے اتار لو۔۔۔۔کیا فرق پڑتا ہے ، مقصد تو خوش ہونا ہے ناں۔۔۔تو ٹھیک ہی ہو گا۔۔۔
کہتے ہیں کہ ہنسے سے زندگی دراز ہوتی ہے، مگر خدا کی قسم جن لوازمات کے ساتھ ہم ہنستے ہیں اپنی زندگی بھی داو پر لگاتے ہیں اور دوسروں کا خون جلا کر ان کے دن بھی کم کرتے ہیں۔۔۔۔
یقین نہیں آتا تو دوستوں کی ان محفلوں کا زکر اخباروں میں پڑھ لیجئے جو ہنسی مزاق سے شروع ہو کر لڑائی جھگڑے اور بعض اوقات قتل و غارت پر ختم ہوتے ہیں۔۔۔
ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ مزاح اور مذاق میں فرق ہے ، اور مذاق کے بھی تین درجے ہیں ۔۔ اگر ہم یونہی آخری درجے کی خوشیاں تراشتے رہے تو غموں کی اتنی بڑی دیوار کھڑی ہو جائیگی کہ ہم چاہ کر بھی اپنے بچوں سے معصومیت کی توقع نہیں رکھ پائیں گے۔۔۔۔ اور وہ گلی محلوں میں کہتے پھریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔" میرا باپ بنتا تھا سالا۔۔۔۔ماموں بنا دیا اس کو۔۔۔" اور ہم آپ اپنی تہذیب کی گندے انڈوں کو باہر گلی میں بھی پھینکنے لائق نہیں رہیں گے۔۔۔۔۔

Tuesday, October 2, 2012

تھینک یو اُنھ یانگ


تھینک یو اُنھ یانگ

[ اندر باہر کے شور کی ایک کہانی]


M.A. Basit


میں کل رات کو کافی دیر سے سویا تھا، ارادہ تھا کہ چھٹی کا دن ہے تو سورج چڑھے ہی اٹھوں۔۔۔۔ مگر ایک تو ان دو کروڑ کورئین لوگوں نے جیسے میرے ہی ناک میں دم کر رکھا ہے، کہیں چین سے نہیں رہنے دیتے۔۔ صبح کی نماز کے بعد سویا ہی تھا، کہ فضا جنگی طیاروں کی کڑک دار آوازوں سے گونج اٹھی۔۔۔ پاکستان میں ہوتا تو سمجھتا کہ دشمن ملک نے حملہ کر دیا ہے یا پھر کسی اعلی سرکاری عہدے پر براجمان کسی بونے کو سلامی پیش کی جا رہی ہے۔۔۔ مگر معاملہ یہاں بر عکس تھا۔۔۔پانچ طیاروں کی ایک اور اسمبلی دھویں کے بادلوں کا پھول بناتی ہوئی گزری تو میری نظر خودبخود اس کھڑکی پر اٹک گئی، جہاں سے میں اکثر آدھی رات کے پورے چاند سے باتیں کرتا آیا ہوں۔۔۔۔۔


Korean Air Show: A festival of Skill and Professional Extreme
ہانیانگ یونیورسٹی کی ڈارمیٹری تھری اس حوالے سے بہت خوبصورت ہے کہ اس کے عقب میں ڈھلوانی کھیتوں کا ایک دلکش منظر موجود ہے ، جس سے کچھ اور دور سبزیلی چٹانیں، جن پر کوریائی سبزہ مستِ مسرت نظر آتا ہے۔۔۔کبھی کبھی تو کھڑکی سے دمکتے چاند اور ڈوبتے سورج کی وہ جھلک بھی نظر آجاتی ہے جو ہم میں سے اکثر دیس کی خوشبودار مٹی پر جوان ہوتاچھوڑ آئے ہیں۔۔ خزاں کی رنگدار ادائیں اور برف کی سفید چادر تو اس سے بھی بدرجہا دلفریب نظر آتی ہے۔۔۔لیکن آج پہلی بار میں کھڑکی سے سر باہر نکال کر فضا میں کھو سا گیا تھا۔۔۔ ایک بڑا طیارہ زمین کے اتنے پاس سے ہو کے گزرا کہ جیسے اسے چوم کر گیا ہو۔۔۔۔۔۔ 
میں حیران بھی تھا اور پریشان بھی۔۔۔۔۔۔۔۔میری نیند اڑ چکی تھی اور بوجھل آنکھوں میں ہمیشہ کی طرح سوالوں کے بخارات
امڈ رہے تھے، جوذہن کا مطلع ابر آلود کرنے کے لئے کافی تھے۔۔۔۔۔۔۔ میں حیران اس لئے تھا کہ جو قوم سڑک پر ہارن بجانے سے ڈر جاتی ہو, جن کے پاس جا کر ہلکا سا اونچا بول دو تو ان کی آنکھیں پتھرا جائیں۔۔۔وہ کیسے برداشت کر رہیں ہوں گے اس قدر شور۔۔۔۔ایسی گرجناک آواز۔۔۔۔۔
اور جب مجھے اس کا جواب پتا چلا تو میں پریشان ہو گیا۔۔۔۔۔اور اسی پریشانی نے میرے قلم کو بسترِ استراحت سے اٹھا کر، کام پر لگا دیا۔۔۔ مجھے ایک کورئین دوست اُنھ یانگ سے پتا چلا کہ ساتھ ہی ایک پریڈ ایوینیو میں کورئین افواج کا ائیر شو ہے جس میں وہ اپنی فضائی استعداد اور فنی مہارت کا عوامی مظاہرہ کر رہے ہیں، اُنھ یانگ نے یہ بھی بتایا کہ یہ شو پورا ہفتہ جاری رہے گا۔۔۔۔

میں اور بھی پریشان ہوا، میری پریشانی کی دووجوہات تھیں ۔ ایک تو یہ کہ پورا ہفتہ رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا پڑے گا جو میرے جیسے شب مزاج کے لئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔کیونکہ رات تو ہوتی ہی دلِ آوارہِ شب کی ہے  یا پھر شب بیدار آنکھوں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر میں تو اپنی پریشانی کا رونا رو رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری پریشانی مجھے کورین لوگوں کو سوچ کر ہوئی کہ ان کا کیا بنے گا۔۔۔یہ کیسے سہہ لیں گے۔۔۔۔اتنا شور۔۔۔پہلے خیال آیا کہ کانوں میں آئی فون کے ہیڈ فونز ڈال کر تو یہ بھاٹی گیٹ پر گھنٹوں نو نمبر ویگن کا انتظار بھی کر سکتے ہیں، مگر خیال آیا کہ رات کو تو رہے یہ گنگنم سٹائل کی روح پرور سر تال سننے سے۔۔۔۔۔جب کوئی جواب بن نہ پایا تو پھر اُنھ یانگ کو کاکائو میسیج کر ڈالا۔۔۔۔ جواب مزید پریشان کن تھا۔۔" ہمارے سر پر ہمارے دشمن  کا شور اس سے بھی زیادہ ہے، اس کی آواز کو مارنے کےلئے ہم ایسے کتنے ہی کڑک دار شور گلے  لگا سکتے ہیں۔۔۔"
اُنھ یانگ بھی مجھے میری زبان میں جواب دینے لگ چکا ہے۔۔۔یہ وہ جملہ ہے جو میں اّپ تک اور پھر آپ سے آگے جہاں تک ممکن ہوا،شئیر کرنے آیا ہوں۔۔۔۔


Pakistan Air Festival 2002: An Event of Patriotism and Skill
میں پاکستان کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے چہروں پر جھنڈے پینٹ کروا کر چھ ستمبر کی اسلحہ نمائشیں دیکھیں ہیں۔۔۔ ریل گاڑی پر ٹینک جاتے دیکھ کر سلییوٹ کئے ہیں ، اور ہوا میں اڑتے طیارے دیکھ کر چھت پرکڑی دھوپ میں گھنٹوں گزارے ہیں۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ چھ ستمبر کو یومِ دفاع کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ستمبر کا ایک پورا ہفتہ بری، بحری اور فضائی افواج کے ترانے نہ صرف گلی گلی سنے جاسکتے تھے بلکہ، پاکستان کے اکلوتے ٹی وی چینل پی ٹی وی اور بعدازاں پی ٹی وی ٹو کے چہرے پر بھی قومی و ملی محبت کے سُر بکھرے رہتے تھے۔۔۔ مجھے تو ۲۳ مارچ کی وہ پریڈ بھی یاد ہے جس میں، افواجِ پاکستان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں اور چاروں صوبوں کے ثقافتی ڈیمو پریڈ میں شرکت کرتے تھے جن کے بیک گراونڈ میں لوک گیت، اسٹیج پر لوک فنکار اور سامنے سبز ہلالی پرچم نظر آیا کرتا تھا۔۔۔۔اُنھ یانگ کی بات ٹھیک تھی، ، فضا میں اڑتے ہوئےطیاروں کی آواز تو اس کے دشمنوں کے لئے شور ہے۔۔۔اس کے ملک کے باسیوں کےلئے تھوڑی۔۔۔مگر میری پریشانی اور بھی پیچیدہ تھی۔۔ چارسال قبل میں نے اپنے اسٹوڈنٹس سے کلاس میں پوچھا تھا، کل چھ ستمبر کو کس چیز کی چھٹی ہے؟ تو بی ایس سی انجینئرنگ کے اسٹودنٹس کے پاس اس سے آگے کوئی جواب نہیں تھا، کہ بس کل چھٹی ہے۔۔۔ کوئی قومی دن ہے شاید۔۔۔یہ" شاید" ہی میری پریشانی ہے  جو میری آج کی نسل کے رگ وپے میں رچ گیا ہے یا رچا دیا گیا ہے۔۔۔۔بیسیوں چینل وجود میں آگئے ، انفارمیشن تیکنالوجی کے بازار نے تجارت کے ریکارڈ قائم کر دئیے مگرآئندہ نسل کو نہ تو اقبال رحمہ اللہ کا یومِ وفات یاد ہے  اور نہ قائدِ اعظم رحمہ اللہ کے والد کا نام۔۔۔۔میں یہاں کسی سیاسی عسکری یا فلسفیائی پیرائے کو قلم بند نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وقت کے اس دوراہے پر نہ تو ٹرین پر ٹینک جاتے دیکھ کرکوئی سلیوٹ مارتا ہے اور نہ ہی کوئی گھنٹوں چھت پر ٹھہر کر فوجی طیاروں کا شور محسوس کرنے کی طلب رکھتا ہے، ہم تو بد قسمتی سے اس موڑ پر آن پہنچے ہیں جہاں ہماری عقل ہماری زبان سے بڑی گالیاں بکتی ہے اور ہماری حب الوطنی ہمارِ خود غرضی کے آگے روز ننگی ہوتی ہے۔۔۔فوج کا نام لو تو جمہوری ناخداوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں، جمہوریت کو سلام کرو تو میڈیا کا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے، میڈیا کو خراجِ عقیدت پیش کرو تو ملائے حرم کا ایمان جاگ اٹھتا ہے، اور منبر و مسجد کی ثنا لکھو تومذہبِ جدت پسندی کپڑوں سے باہر نکل آتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اس لئے میں اپنی بات کو پاکستان تک رکھتا ہوں بس پاکستان تک۔۔۔اور اپنی پریشانی آپ سے شئیر کرتا ہوں۔۔۔۔میں سوچتا ہوں کہ  کہاں ہے وہ شور جو طبع پر گراں نہیں گزرتا۔۔۔جو ننھے بچوں کو حمیت کا درس دیتا یے۔۔۔ جو ہوا میں بل کھاتے ہوئے طیاروں کی فریکوینسی پر شاہینی صلاحیتوں کو ٹیون کرتا ہے ، کہاں ہیں وہ روایات  جو عوام اور افواج کے درمیان ہم آہنگی اور سمجھ بوجھ کو فروغ دیتی ہیں، کہاں ہیں وہ اسٹیج جن پر قومی رنگوں میں علاقائی رقص کئے جاتے ہیں ، کہاں ہیں وہ موسیقار جو سات زبانوں میں ایک ترانہ لکھتے تھے، کہاں ہیں قوم کے وہ بچےجو اپنی سائیکل کے ہینڈل پر پاکستان کا جھنڈا لگا کر دھوپ میں بھی گاتے پھرتے تھے۔۔
میں اسی المیے کے سبب پریشان ہوں ، کہ قصدا یا غیر قصدا ہمارے معاشرتی نظام میں سے ان تمام چھوٹے چھوٹے عناصر کو نابود کردیا گیا ہے، جس سے ملی یگانگت، قومی تشخص، مذہبی رواداری ، صوبائی خودداری، نظریاتی اساسیت اور عسکری جذبات کی بیداری کو فروغ ملا کرتا تھا، پالیسی ساز ادارے جانے کون سی آڑھت میں مصروف ہیں، کہ ان کی توجہ آنے والی نسل اور ان کے مفاد پر پڑتی ہی نہیں۔۔۔۔ایسی اندھی گنگی بہری نسل پیدا کی جا رہی ہے جن کا اندر ہی شور ہے، کنفیوژن کا شور۔۔۔بے رہروی کا شور۔۔۔۔بے علمی کا شور۔۔۔۔
مائیکرو بائیو چپس سنٹر کے پہلو میں ساوتھ کوریا کی افواج کا یہ عملی مظاہرہ چند روز اور جاری رہے گا، اور جانے میں رات کے شور سے سمجھوتا کرتا ہوں یا دن کے شور سے۔۔۔۔دن میں سوتا ہوں یا رات مجھے پناہ دیتی ہے، یہ سوال الگ ۔۔مگر مجھے یقین ہے اُنھ یانگ کو نیند اپنے وقت پر ہی آجائیگی، کیونکہ اس کے لئے یہ شور وہ نعرہِ مستانہ ہے جو ہنگامہِ فردا کا اعلان ہے اور جس سے لوگ سو جاتے ہیں ، مگر ان کا قومی ضمیر اور تشخص جاگتا رہتا ہے۔۔ 


Pakistani Soldiers Showing their Skills
مجھے لگتا ہے، کہ مستنصر حسین تارڑ کے سارے "بی بے" بچوں کو اب اپنے اندر کے شور کو یاد کرکے شور کرنا ہوگا اور اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر ملی، معاشرتی اور قومی شناخت اجاگر کرنا ہو گی۔۔ ورنہ اندر اور باہر کا شور مل کر ہمیں بے نسل کر دے گا، اور ہمارے بچے ہم سے آکر پاکستان کا مطلب پوچھیں گے ، اور شاید ہمارے پاس انہیں دکھانے کے لئے ایک پرانے سے نقشے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔