Wednesday, June 18, 2014

The Two sides of a Story

کہانی کی مرضی یا مرضی کی کہانی











" کہتے ہیں ، مکمل جھوٹ سے ذیادہ خوفناک آدھا سچ ہوتا ہے۔۔۔۔ اور ہمارا میڈیا اور اس کے اجارہ دار آدھا سچ بولنے والی وہ فیکٹریاں ہیں ، جن میں نفرت، باہمی انتشار ، اور سیاسی ہیجان کے غلیظ دھویں کے سواء کچھ پیدا نہیں ہو رہا۔ مذہبی انتہاء پسندی ، امریکی جنگی اتحاد، فرقی پرستی اور سیاسی و طبقاتی کرپشن جیسے کیسے کیسے المیے ہیں ، جو پہلے ہی آگ پکڑے ہوئے ہیں ، اور بریکنگ نیوز، لائیو کوریج ، جاہلوں کے ٹاک شوز، اور رپورٹروں کے احمقانہ جملے اس جلتی پر تیل کا کام کرتے نظر آتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کا کام خبر نشر کرنا ہے ، بلاشبہ لیکن ، وہ سچ جو شر پھیلائے ، مصلحتا تو اس کی بھی ترویج نہیں ہونی چاہیئے ، کجا یہ کہ من گھڑت یا یک طرفہ صورت گری کر کے صورتِ حالات مزید ابتر کی جائے ۔ خدا جانےا یسا وہ جان بوجھ کر کرتے ہیں ، کسی کے اشارے پر ، یا اتنی عقل ہی نہیں رکھتے، کہ ایسے نازک دور میں ان کی ذمہ داری کیا ہے ۔

کراچی میں گزشتہ پندرہ سالوں سے قتل و غارت جاری ہے ، مگر "نامعلوم" معلوم نہیں ہو سکا۔ ان کا اپنا ایک "میر" نشانہ بنے تو میرِ کارواں کو بھی گھسیٹ لاتے ہیں۔ ہر دور کے حکمران کو تو گلیوں بازاروں میں گھسیٹنا مشغلہ بن گیا ہے۔ کبھی بس چلتا تھا تو عدالت اور فوج کے کپڑوں کو بھی مرضی سے اتارنا شروع کر دیا کرتے تھے ، لیکن شاید اب سبق سیکھ لیا ہے وہاں سے۔

میرا نکتہ کچھ اور ہے ۔ کہانی کی مرضی سے سب کچھ نہیں دکھایا جاتا ، بلکہ جو ہمیں بسا اوقات سمجھایا جاتا ہے وہ مرضی کی کہانی ہوتا ہے ۔ طاقتیں رکھنے والے ، جب ایوانوں اور دستور ساز اسمبلیوں میں اپنے حق میں فیصلے نہیں کروا سکتے ، وہ پولیس گردوں ، عدالتی حق فروشوں ، فوجی چالسازوں اور آج کے دور میں ذرائع ابلاغ کا رستہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا عرصہ دراز سے ہمارے اخبارات کی زینت بنتا آیا ہے، مجھے اب بھی یاد ہے ، کہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے ایک استاد پر جنسی ہراسمنٹ کی خبر لگوائی گئی جو، بعد میں جھوٹی نکلی، مگر تب تک عزتِ سادات کا صفایا ہو چکا تھا۔ اس کج روی نے نئے دور میں نیا رخ لیا ہے ، اور اب کہانیاں بنائی جاتی ہیں ۔ خود نہیں بنتی۔ اربابِ قلم ، طاقت کے اس جنگل میں لفظوں کی کوزہ گری سے کھیلتے ہیں ، کبھی اپنے عزائم کے لئے اور کبھی شاید کسی اور کے کہنے پر۔

منہاج القرآن کے ورکروں کے ساتھ جو ہوا، اس سے بڑھ کر گھناونا فعل ہماری تاریخ میں نہیں ہوا۔ جس طرح سے عورتیں ہلاک اور بے عزت ہوئیں ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ پولیس جس طرح مال اسباب لوٹتیں رہیں ، یہ بھی قومی شرمندگی ہے۔ حکمران جس طرح ظلم و تشدد پر اتر آئے ، یہ تو ہے ہی اللہ کے عذاب کو دعوت دینا۔

لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں، کہ جب ہم اپنے لوگوں کو اپنی قوم کو مسلسل ، نفرت ، ہیجان ، سیاسی مخاصمت، فرقہ وارانہ دانش، انقلابی سیاست ، آمرانہ اسلوب کا سبق پڑھائیں گے تو کیا کانٹے نہیں پھول اگیں گے؟ جب قادری صاحب حکومت اور نظام سب کو پلٹنے یا فوج کو منصبِ حق سے سرفراز کرنے کی تفسیر فرما کر گھسے پٹے اداروں کو مزید رسوا کریں گے تو وہ روکنا نہیں چاہیں گے۔ جب پارلیمان کو نظر انداز کر کے ، فیصلوں کا اختیار سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جائے گی تو کیا یہ خون و کشت کا بازار گرم کرنے مترادف نہیں ہوگی۔

میں یہ نہیں کہتا ، کہ فریقین سچے ہیں یا جھوٹے ہیں ۔ میں تو سیدھا سا نکتہ رکھنا چاہتا ہوں، کہ جب عوام کو یہ باور کرادیا جائے ، کہ اب فیصلے سڑکوں پر ہوں گے، اول آپ قانون ساز اداروں کا انکار کرتے ہیں۔ دوم عدلیہ کے انصاف کر سکنے کی صلاحیت سے انکار کرتے ہیں۔ سوم ، گر ایسے میں صرف فوج ہی دودھ دھلی نظر آتی ہو ، جس نے کبھی جمہوری اداروں کے آگے ماتحتی قبول ہی نہ کی ہوم تو مجھ جیسا نادان بندہ کنے پر مجبور ہو ہی جاتا ہے ، کہ یہ کہانی کی مرضی نہیں ، بلکہ مرضی کی کہانی ہے جو شاید جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف کی طرح دستور سازی سے ، قانون کی بالا دستی سے نہیں ، بلکہ سڑکوں سے تبدیلی لانا چاہتی ہے۔ مصر و شام میں چلنے والی خونی لہر کے تناظر میں تو میرا قلم اور بھی ڈر جاتا ہے کہ میں لکھوں ، کہ سڑکوں سے انقلاب لانے والوں کی مہربانی سے یا تو خونی تصادم ہوا ہے ، یا پھر فوج تشریف لائی ہے ، تیسرا تو کچھ نہیں ہوا۔ اور جس قدر بارودی جذابات ہمارے قائدین نے پاکستانیوں میں بھر رکھے ہیں ، اور جس حقارت سے ہم ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں ، اگر فیصلے سڑکوں تک لائے گئے تو وہی ہو گا جو برِ صغیر کا نیا نقشہ بنانے والے چاہتے ہیں۔۔ [ خاکم بدہن]۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[ درج بالا پیرائے کو مری ذاتی رائے سمجھا جائے ، مقصد کیسی کی جذبات وابستگی یا سیاسی نظرئے کو ٹھیس پہنچانا نہیں : جزاک اللہ ]

اقتباس: برف برف چہرے : عبدالباسط صائم

مورخہ: ۱۹ جون ۲۰۱۴ء

Sunday, March 16, 2014

ایک تصویر ، دو کہانیاں

زیرِ نظر تصویر کوریا میں پاکستان کلچرل فیسٹیول کے دوران ایک کوریائی فوٹوگرافر کی پیشکش کے طور پر رکھی گئی تھی۔۔۔میں جب فیسٹیول کو اپنے موبائل کیمرے کے ذریعے محفوظ کر رہا تھا ، میری نظر سے یہ تصویر گزری تو ایک لمحے کو میں خود تصویر ہو گیا۔۔۔ تھوڑی دیر تک جو ایک اطمینان تھا، کہ چلو، پاک دھرتی کے لئے کچھ نہ کچھ ، ذیادہ نہیں بہت تھوڑا ہی سہی، اچھا نہ سہی ، ٹوٹا پھوٹا ہی سہی ، ہم کر رہے ہیں، یا کم سے کم کرنا چاہتے ہیں، تصویر کی منجمند کہانی میں جم کر رہ گیا اور میں بھی شاید کچھ لمحے کے لئے منجمد ہو گیا۔۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں، شاید شعریت کی فطرت انسان کو جذبات کی لہروں میں غرقاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔اور میں بھی کہانی دیکھ رہا تھا، ایک جو صرف کورین کی آنکھ نے دیکھی تھی اور ایک جو اس وقت میری آنکھ میں پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔۔
گینگ نیونگ کا سبزیلا ساحلی علاقہ۔۔۔۔ اس کے بیچوں بیچ کلچرل فیسٹیول کا خوبصورت میدان ، اس میں پاکستانی کھانوں ، کپڑوں اور خوبصورت چہروں کی بہار ، پسِ منظر میں قومی ترانوں کی دھنیں اور لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم۔۔۔۔ سبزیلا میدان اور اس میدان کے عین درمیان میں یہ تصویری نمائش جو ایک کورین فوٹو گرافر اور اس کے کیمرے نے پاکستان سے محبت میں چوری
کی تھی۔۔۔اور ان تمام تصویروں میں یہ ایک تصویر ، جس کی ایک کہانی تو ختم ہونے والی ہے۔۔۔۔ جو میں لکھ کر سنا رہا ہوں۔۔۔ یا شاید وقت کے ہاتھوں سے پڑھ کر لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔میں نہیں جانتا، کتنے کورینز نے یہ تصویر دیکھی، کتنے پاکستانیوں کی نظریں یہاں ٹکرائیں، کتنی آنکھوں نے اداسی کی سانس بھری ۔۔۔۔
مگر میں کہ ، ۔۔۔۔ دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
شاعری کا بوجھ اٹھائے کھڑا تھا ۔۔ مرا کام مجھے آوازیں دے رہا تھا، مگر لمحے مری دسترس سے نکل چکے تھے۔۔۔مجھے دوسری کہانی کی ساری سطریں پڑھنی تھیں۔۔۔۔
دوسری کہانی دوسری تصویر ہے۔۔۔۔۔ جو میں نے بنائی ۔۔۔جو آپ کے سامنے ہے ۔۔۔۔اس تصویر کی تصویر۔۔ جس کے پس منظر میں کوریا کی بلند شگاف عمارتیں واضح ہیں۔۔۔۔ پہلی تصویر جو کورین نے بنائی اسے صرف پاکستان کا ایک سپاہی دکھائی دیا ، جس کے پیچھے تباہ شدہ گاڑیاں۔۔۔ دھماکوں کی زد میں آنے والے افراد اور ان کے خون سے رنگی ہوئی سڑکیں۔۔۔اور ہوا میں دھویں کے کچھ زرات جو شاید ذیادہ واضح نہ ہو سکے ہوں۔۔۔۔ اس کورین نے جانے کیا کچھ سوچا ہوگا جب یہ تصویر بنائی ہو گی۔۔۔ ہم پر ترس بھی کھایا ہو گا ، کہ اتنے خوبصورت ملک کا نصیب کتنا برا ہے۔۔۔۔جیسے کسی غریب گھر میں پیدا ہونے والی کسی خوبصورت دوشیزہ کا مقدر ہوتا ہے۔۔۔۔ شاید اس نے گالی دی ہو، ان لوگوں کو جنہوں نے یہ عفریت کا سامان پیدا کیا ہو ، شاید اس نے حکمرانوں کو برا بھلا کہا ہو، شاید اس نے بین الاقوامی جنگ کا شاخسانہ سوچ کر یہ منظر عکس بند کئے ہوں۔۔۔۔۔ شاید مذہبی عدم برداشت دکھانا چاہتا ہو۔۔۔ شاید ہماری آرمی اور پولیس کی نا اہلی کا خیال اس کے دل میں جنم لے کر کیمرے تک آ گیا ہو۔۔۔۔شاید وہ خوف اور بے چارگی کو تصویر کرنا چاہتا ہو ، جس اس پولیس والے کے چہرے پر واضح نظر آرہا ہے۔۔۔۔ شاید ان لوگوں کا دل دکھانا چاہ رہا ہو، جن کی گاڑیان جل گئیں اور رشتہ دار دھواں ہو گئے۔۔۔ میں نے اس کو تلاش کیا، کہ اس سے پوچھوں اس نے کیا سوچ کر یہ تصویر بنائی،۔،،،،یا یہ تصویر بنا کر کیا سوچا۔۔۔۔مگر وہ مجھے نہیں ملا، کہ وقت کی کمی تھی اور فیسٹیول کی ذمہ داری بھی کچھ سر پر تھی ۔۔اس لئے اس خیال کے پیچھے زیادہ نہ دوڑ سکا۔۔۔۔
مگر جو تصویر مجھے نظر آئی ، مجھے اس کی کہانی روکے ہوئی تھی۔۔۔۔ اور آج لکھے بنا نہ رہ سکا۔۔۔۔ مری تصویر میں ایک نہیں ، دو پس منظر ہیں۔۔۔ ایک وہ جو کورین نے بھی دیکھا اور میں نے بھی دیکھا۔۔۔۔ اور دوسرا وہ جو شاید اس فوٹو گرافر نے نہ دیکھا ہو، اور مجھے ملا تو میں اس دکھاوں گا بھی۔۔۔۔۔ وہ میں آپ کو دکھانے جا رہا ہوں۔۔۔۔
میری تصویر میں ایک نہیں دو پسِ منظر ہیں۔۔دوسرے پس منظر میں وہ بلند شگاف عمارتیں ہیں ، جو مرے تباہ حال سپاہی اور مفلوک الحال زمیں کی کی گود میں پڑی ہوئی تباہ شدہ گاڑیوں کی کہانی کو کچھ اور الجھا رہی ہیں۔۔۔ کچھ اور استہزاء کر رہی ہیں۔۔۔ کچھ اور دل جلا رہی ہیں۔۔۔۔ تصویری مفہوم تو یہی ہے ، کہ ترقی اور تہذیب کے درمیان ان دھماکہ زدہ لمحوں اور تباہی و بربادی کا ایک طویل عمیق سمندر ہے ، جس نے ہماری قوم اور اس کے محا فظوں کو امن و سلامتی سے دور دھکیل دیا ہے۔۔۔اور یہ فاصلہ طے کئے بنا شاید کبھی منزلیں اب نہ مٹ سکیں۔۔۔ لیکن بات کچھ اور بھی تھی جس نے مرے قدم روکے رکھے۔۔۔ وہ یہی کہ اس وسیع و عریض میدان میں بھی ایک آئینہ موجود تھا،، جو مجھے میری تصویر دکھا رہا تھا، جس کی کہانی مجھے مرے قلم سے مجبور ہو کر لکھںا پڑی اور وہ یہ کہ ابھی بہت راستہ ہے طے کرنے کو۔۔۔ابھی بہت دور ہے منزل اور سویرا۔۔۔۔ یہ نہیں کہ امن و امان، یہ نہیں کہ تہذیب و تمدن، ٹیکنالوجی صرف ، بلکہ کورین تصویر سء میری تصویر کا تمام فاصلہ ۔۔۔اس کی آنکھ سے میری آنکھ کے درمیان میں تمام مدو جزر۔۔۔۔۔
مجھے یاد آرہا تھا،

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو،
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر۔۔۔۔
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔۔۔۔

مجھے وہ تمام اجزائے ہستی بکھرے بکھرے نظر آئے ، جن پر معاشرت کشیدکر جاپان کے تلوے چاٹ کر زندہ رہنے والی قوم ، ہماری بے بسی پر شاید ہنس رہی تھی۔۔ مجھے کوریائی تہذیب اپنے پاوں پر کھڑِی نظر آئی اور اپنے لوگ اپنی ہی نظروں میں گرے نظر آئے۔۔۔ مجھے ترقی کا سفر کبھی بھی مطمعِ نظر نہیں رہا ، مگر میں تہذیب ، محبت اور امن کو معاشروں کی زندگی اور برتری کا معیار سمجھتا ہوں۔ اور اس معیار پر تنزلی کی ساری گالیاں مجھے اس تصویر میں نظر آ رہی تھیں۔۔ میں اپنے لوگوں اپنی قوم کی غیر سنجیدگی، بے اخوتی ، عدم برداشت ، خود پرستی، لمحاتی جذباتیت ، خود وابستہ بے خودی اور مفاد پرستی سے بہت حد تک واقف ہو چکا ہوں۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ غریب ایک روٹی پر ووٹ بیچ دیتا ہے۔،۔ امیر ہر سال کپروں کی طرح عیاشی کا سامان بدلتا ہے۔۔۔۔ فقیر حرام کو حلال کر لیتا ہے۔۔۔ درویش زہد کو گالی دینا فخر سمجھتا ہے ، عاقل تھوک کو بحث اور بحث کو دلیل گردانتا ہے۔ جاہل کو علم طوائف لگتا ہے۔ ملا کو عوام سے نفرت ہے، عوام کو سیاست سے، سیاست کو فوج سے۔۔ فوج کو عدلیہ سے اور عدلیہ کو جانے کس کس سے۔۔۔
بہت فاصلہ ہے ابھی جو اس قوم کو طے کرنا ہے ، نہت سی منزلیں ہیں جو ایک منزل کی تلاش میں پیدا کرنی ہیں۔بہت سی قربانیاں ہیں جو اس قوم کو دینا ہیں، مگر بہت سےے خدشے ہیں جو میرے ذہن میں اس تصویر کو دیکھنے کے بعد در آئے۔۔۔ کہ کیا ہم واقعی آگے جانا چاہتے ہیں۔۔ شاید ابھی تک ، نہیں۔۔۔۔۔ یا اگر جانا بھی چاہتے ہیں تو انفرادی سطح تک بحیثیتِ قوم نہیں۔ اور یا پھر ابھی تک ہم عملی طور پر اس کے لئے تیار نہیں۔۔ کیونکہ میں جانتا ہوں، کہ جاپان کا جھوٹا کھانے ، اور غربت کی ننگی گلیوں سے ترقی اور امن کی اعلیٰ منزل تک پہنچنے کے لئے کوریا کے افراد نے جن خواص کو سہارا لیا ، وہ ہمارے عوام میں تو کیا ، ان خواص میں بھی نہیں ہے ، جو ملک اور ملک کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔۔
میں اپنی تصویر کی کہانی میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں ، کہ کوریا کی اس بلند عمارت کی بنیادوں میں محنت اور مقصد کے تیس سال دفن ہیں ، لاکھوں قربانیوں کی تصویریں موجود ہیں، جو میری کہانی سے ذیادہ دردناک رہی ہوں گی۔۔۔۔ملک کے لئے مر متنے کا جذبہ، قوم کے لئے ہر تکلیف اٹھا لینے کی ارادت، مستقبل سنوارنے کے لئے آج کی قربانی، آنے والی نسل کی خاطر اپنا سب کچھ وار دینے کا تہییہ۔۔ مجھے تو یہ سب نظر آرہا تھا اس گراونڈ میں جہاں، ایک طویل مدت بعد پاکستان کے نام پر لوگ جمع تھے۔۔۔
اور میں کہانی کی آخری سطروں میں سوچ رہا تھا۔کہ کیا کبھی مرے پاکستان کی وہ تصویر مکمل ہو گی، جو قائد ، اقبال نے دیکھی تھی۔۔۔ جو ہر محبِ وطن پاکستانی آج سو بار دیکھتا ہے، مگر اس کے لئے کرتا کچھ بھی نہیں۔۔۔ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ دامن بچا کر پردیس میں آبیٹھتے ہیں۔۔۔ نوکریاں ڈھونڈتے ہیں۔ چھوکریاں ڈھونڈتے ہیں ، اور پردیس کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔۔۔ جو بچ جاتے ہیں، وہ ذات، مفاد، عدم برداشت ، صوبائیت، فرقہ واریت اور لسانی تعصب کے گھن چکروں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔۔۔ نجانے وہ لوگ کب پیدا ہوں گے جو قوم اور وطن کی خاطر ، فکرِ فردا لئے اپنا آپ قربان کرنے ، دکھ مصائب تکالیف برداشت کرنے، بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے ، ایثار احسان اور تعان کی زبان بولنے ، خودی کی اطراف ڈھونڈ لانے، اپنا جہان آپ پیدا کرنے اور ملک و ملت کا سہارا بننے کا عہد بھی کریں گے اور عمل بھی۔۔۔۔جو اپنی ذات، اغراض اور سوچ کی زمینوں سے بلند تر ہو کر ہر وقت۔ ہمیشہ اور ہر حد تک مقصد و مطلب سے متعلق ہوں گے۔۔۔جن کی زبانوں پر مسائل نہیں ، ان کے حل ی گردان ہو گی۔۔ جن کے ہاتھوں میں وسائل نہیں، خدمت کی تسبیح ہو گی۔۔۔اور جن کے ماتھے پر پیٹ سے زیادہ بل بڑے ہوں گے۔۔۔۔ جن کو اپنے لئے روٹی کپڑا مکان نہیں اپنے ملک کے لئے مستقبل عزیز ہوگا۔۔ اور جو تنکا تنکا ، قطرہ قطرہ زرہ زرہ امیدیں اکٹھی کر کے آج کے بدلے کل خرید لائیں گے۔۔۔۔۔ ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہی میری تصویر کی کہانی ہے۔۔ کم سے کم ایک آدمی کو پیدا کرنا۔۔۔۔۔خود کو۔۔۔
جو گھر کی خاطر بھوکا بھی رہ سکتا ہو، رات جاگ کر گزار بھی سکتا ہو،/۔۔ پیدل چل کر جھنڈا بھی لہرا سکتا ہو۔۔۔ اور پردیس میں بیٹھ کر دیس کی تصویروں کے آنسو بھی پوچھ سکتا ہو۔۔۔ دل میں اڑنے کا جذبہ بھی رکھتا ہو،۔ مگر شام سے پہلے گھر لوٹ جانے کا عہد نامہ بھی ساتھ لئے پھرتا ہو۔۔۔۔۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

بس تب ہی یہ ممکن ہو گا ، کہ کبھی کوریا میں کوئی فوٹو گرافر پاکستان کی تصویر لگائے ، تو میرے یا آپ جیسے کسی پاکستانی کے قدموں کی رفتار دھیمی نہ ہو،۔ اور اسے ایک ہی تصویر کی دو کہانیاں نہ لکھنی پڑیں۔۔۔۔

موج بڑھے یا آندھی آئے ، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر ، سو دکھ جھیلیں ، گھر تو آخر اپنا ہے

انشاء اللہ
پاکستان زندہ باد

Friday, March 14, 2014

Tough but not Rough

"A Story of Higher Education" by M.Abdul Basit Saim

It is the restless nature of human being that inspires him to learn more and more about the hidden truths of nature. Either revealed or not, either told by our predecessors or not, to unfold the mysteries around us  is the inheritance we have from the first day we are in world as earthians.  That is how we learn and  that is why we learn.
There is something to be said about the fact that I learned to read at a very young age. Perhaps it is not entirely true that it changed the course of my life, but I can say for certain that it opened up a world vastly different from my own earlier, I think, than my parents intended.  I always urged to move forward to learn and to earn the money of knowledge considering it a religious esteem as well as socio-moral obligation. But that does not make the story complete as I always possessed a thought of being incomplete in modern day knowledge,  either scientific or socio-religious, without having higher education abroad. To me, knowledge is distributed all around you equally. No matter you learn from silence of trees around you or voices of pen and book placed on the table. My belief of learning did not allow me to look for a white collar job that an engineer usually dreams for , rather I made a tough decisions for myself, but not rough definitely.  
Teaching profession is generally considered to be the last-option choice for engineers when compared to the multi-national offers having highly paid  packages and prosperous service structure with many a fringe benefits. After graduation , in my view, graduates are divided in two categories i.e. one with earning priority and the other with learning priority. Being from the second class of graduates, though first class in merit, learners step forward for higher education keeping social status , family planning and many other features of personal lives aside and opt a longer and higher route  towards success and objectivity of life.  Tough but not that rough ride is more often accompanied with overseas exposure as a scholarly learner or as a science and technology researcher.  In Pakistan,  because of not having that standard and innovative study work at graduation level which is further by dint of substandard  educational system and lack of research facilities, it is more likely to happen that there comes a time gap to pursue higher education after graduation and being accepted for higher education or doctoral studies. I am an eye witness of the fact that many an efforts are gone scraped due to poor research proposals and deficient research background. Till now, it is uncommon to find local graduates with published research work  in internationally recognized journals at graduate level, which so far is forcing Higher Education Commission to invest a huge financial budget on scholars which is estimated to be Rs. 1.4 Billion for the OSS MS Leading to PhD Program, Rs. 550 Million for PhD Fellowships and Rs. 740 Million for Faculty Development Program.
 To my understanding, this MS Leading to PhD policy of HEC is to favor candidates to overcome the barrier of being unsuccessful to secure admissions directly in foreign institutes  due to relatively poor research profile and to enhance the rate of doctoral studies among researchers returning with  professional aims of technological advancement and educational change. Research output out of Pakistan increased by over 50% within two years, which was the second highest increase worldwide. According to Scimago world scientific database, if Pakistan continues at the same pace, its ranking will increase from 43 to 27 globally by 2017.
Studying abroad is truly a tough experience, though not as hard as working or doing labor abroad. In fact overseas experiences always depends on country , field of study, type of scholarship, personality and profile of supervisor and Laboratory environment in specific. But for the sake of generalization , one may categorize it  in two types i.e. English speaking countries and Non-English Speaking countries. Some may assume that if not  in common daily life abroad , at least  Higher education programs would be in English including courses offered, documentation and class communication. But that is not as true as generalized while making plans in Pakistan. Many a countries like Japan, Germany, China, South Korea and others have a contradictory status to the assumed one. Even in some cases , initially scholars have to learn the particular language and then settle in specific professional course. Language barrier to me is the difficult most obstacle that one has to cross along with his or her successful professional studies. Cultural and religious differences also  exist but one with thinking head and living heart  can easily manage with both. "Why donot you drink Vine?" and to "Why do you eat Halal meat only?" are the common most questions put forward to muslim scholars on dining tables while having a party together. It turns very funny sometimes when someone considers muslims to be  vegetarian and sometimes when some-one asks "Do You eat Halal Pork?" In countries where muslims are not in reasonable number , most often it becomes really challenging to manage food and one is forced to do cooking and eating non-fresh food.
Starting from Alien Registration , billing , part time job seeking , hospitalization , shopping and other matters which one would may consider negligible appear as mountain range to cross due to language and culture barriers. Though tough, but all these incidents provide an opportunity to be a part of an adventurous movie rather than watching on a 40 inch Flat LG Screen at home. Inter-religion harmony , cultural diversity , techno-scientific advancement,  psycho and theological disparity among people, artistic intellects , geographical sceneries , legendary wisdoms , humanity focused souls , political milieu and much much more is in front of your eyes and beside your heart to feel , to understand and to capture in the form of conventional memory bites of wisdom. More you learn professionally , more you grow spiritually and socio-psychologically.

Precisely,  opportunity to complete  doctoral studies abroad  is not a chance to be a Higher Degree holder, rather a soulful journey of witnessing the wisdom spread on the face of earth and beyond that. Being away from home is the only way to feel the whole world as our home, all humanity as our relatives, and all knowledge as our own affluence for better and prosperous future.

Wednesday, February 27, 2013

پرِ پروازِ ایمانی



پرِ پروازِ ایمانی

[ عبدالباسط صائم]







" ایمان ایک پرندہ ہے ، جس کے دو پر [ بازو] بلاشبہ امید اور خوف کے ہیں۔ خوف اور امید فرد کی ذات کے ارتفاعی سفر میں

نہ صرف پرِ پرواز کا کام کرتے ہیں، بلکہ قوموں اور معاشروں کی زندگی کا ارتقاء بھی انہی دو اجزاء کے توازن سے مشروط ہے۔ مذاہب کی شرح کی چھان پھٹک کی جائے ، تو یہی دو جہتی حقیقت پر پھیلائے نظر آتی ہے۔ جسے جزا اور سزا کی تراکیب سے منکشف کیا گیا ہے۔



ہر وقت خوف کی کیفیت میں رہنا، یا نا امیدی کا پروان چڑھنا ، ذات سے لے کر تہاذہب تک کو صفحہِ ہستی سے نابود کرنے کا سبب ہے۔ اور دوسری طرف خوش امیدی اور بے خوفی کو طرۃِ امتیاز سمجھنا جہل ہے۔ کسی کا یہ گمان رکھ لینا کہ وہ اپنی ذات ، اوقات اور حالات کی زمین پر آسمان کی طرح بلند کھڑا ہے اور اس کی امید کے شجر کو خزاں کا کوئی خوف ہی نہ ہو، دراصل وہ گمراہی ہے جس کا شکار ہو کر انسان بالاخر رذیل اور معاشرے ذلیل ہوا کرتے ہیں۔ غرور صرف خدا کی ذات کو زیب ہے۔ اور جب اپنی ذات کی امید ایمان کے جزوِ خوف سے بالاتر ہو جائے تو فرعونیت بن جاتی ہے۔ جسے بہر کیف دریا برد ہونا ہی پڑتا ہے۔




دوسری طرف خوف اور ناامیدی کی ایسی فضاء قائم کر لینا، کرنے کی کوشش کرنا یا اس کا پرچار کرنا جس میں امید کی کرنوں پر بھی رات کی سیاہی رنگی جا رہی ہو، ایمان کے لئے آلہ قتل ہے۔ مایوسی کا کفر بھی اتنا ہی قاتل زہرآمیز ہے ، جتنا خوش گمانی کی فرعونیت۔۔ امید خدا ہے ، اور خدا امید۔ جہاں عقل اپنے اسباب کی میتوں پر بین کر رہی ہوتی ہے، عین وہیں امید اولاد جن کر مستقبل کے نہ ہونے میں بھی ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ خوف اور امید باطن سے ظاہر تک فطرتِ انسانی کا حصہ ہیں ، گو کہ فرد اور معاشروں کے علمی و عملی مقام کے زیرِ اثر ان اجزائے ایمانی کے تناسب میں فرق ممکن ہے ، مگر کسی ایک پر کے سہارے طائرِایمانی کی پرواز اور درست سمتی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
ہمارے یہاں معاشروں میں مذہبی اور قومی سطح پر ایمان یعنی خوف اور امید کے حوالے سے ایسی افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کہ نہ فرد کا ایمان قائم ہے نہ ایمان کا فرد۔۔


کسی نے امید کا دامن تھاما ہے، تووہ عشق کے نام پر، یا سید ہونے کے نام پر، گدی نشینی کے طرۃ امتیاز پر منسوب ہونے کی وجہ سے اور کبھی مسجد و مدرسہ کا والی ہونے کے زعم میں ایسا بے خوف ہوا ہے ، کہ ایمان کے پرندے کو خوف آنے لگتا ہے ۔ ایمان کی پرواز گنبدوں محرابوں میں کھو کر رہ گئی ہے اور ایک پر کے سہارے ارتفاع اور ارتقاء کا سفر پہیلی بن کر رہ گیا ہے۔۔۔۔امیدوں کے ایسے ایسے پہاڑے پڑھائے گئے ہیں ، کہ سہل طبع قائدین امریکہ جیسے ملک کو مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھتے اور چادر کو دیکھے بنا اتنے پاوں پھیلا لیتے ہیں ، کہ اپنا ہی ننگا پن نظر آنے لگتا ہے۔ 




دوسری طرف خوف کی لاٹھی کے سہارے زندہ افراد اور ان کے نظریوں نے ایمان کو اس امید سے محروم کر دیا ہے ، جو بے تیغ لڑنے کا راز بھی ہے ، اورپرِ پرواز کو حرام کے رزق سے بچانے کا وسیلہ بھی۔۔ ان کی عینک کا نمبر بھی خوف کی گنتی میں شمار ہوتا ہے۔ اور امید انہوں نے گلی میں رہنے والی طوائف کا نام رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی فرد میں مایوسی کا کفر اور قوم میں انتشارکا سبب ہیں۔ مرض کی تشخیص کے نام پر یہ دل کے مریضوں کا دل نکال کر انہیں دکھاتے ہیں اور ہر مریض کو دکھاتے ہیں، جسے گھٹنے کا درد ہو اسے بھی۔۔ یہ تو قومی زعماء ہیں۔۔ مذہبی لوگوں میں بھی ایسے شاہین پرواز لوگوں کی کثرت ہے، ان کا وعظ جہنم سے شروع ہو کر دوزخ پر ختم ہوتاہے۔ اور ایک برائی کے بدلے یہ دوسروں کو ان کی تمام نیکیوں سمیت ہاویہ کا ٹکٹ تھما کر ہی صدق اللہ العظیم کہتے ہیں۔۔ ان کے ایمان کے پرندوں میں خوف کا جزو غالب ہے اور امید ناپید۔۔



اللہ رحیم بھی ہے، منتقم بھی، رزاق بھی ہے اور ستار بھی۔۔۔ امید اور خوف کےپروں پر اڑنے والے پرندے کو سنبھال کر رکھئے ، شیطان نے جال پھیلا رکھے ہیں ، فقظ امید کا جال۔۔۔۔۔ فقط خوف کا جال۔۔۔۔۔ اور اسی طرح شیطان کے چیلوں نے زمین پر ابلیسی مسند سنبھال رکھی ہے۔۔۔۔۔ کوئی خوش گمانی میں دھکیل کر گمراہ کر رہا ہے اورکوئی مایوسی کا خوف مسلط کر کر کے مستقبل کو کافر کرنے پر تلا ہے۔۔۔۔۔ اپنے ایمان کے خوف کو سپہ گری کا فن سکھائیے اور اپنی امید کو بے تیغ لڑنے کا راز سمجھائیے، نہ کوئی فرد کے ایمان کا بال بیکا کر سکے گا اور نہ کوئی افراد کے پاکستان کا کچھ برا کر سکتا ہے۔۔۔۔"

[[ اقتباس از مٹی کے جگنو: عبدالباسط صائم ]]

Wednesday, January 2, 2013

جائز ، پھر بھی حرام



جائز ، پھر بھی حرام




انسان جو اپنی طبعی حیات کے لئے دانہ پانی اکٹھا کرتا ہے ، دو طرح کا ہوتا ہے۔ جائز یا نا جائز۔ زمین کے محیط پر سفر کر لیجئے، بنیادی طور پر جائز یا ناجائز آمدن کا فلسفہ ہر جگہ موجود نظر آئے گا۔ قانون کا المیہ یہ ہے، کہ یہ زمین کے چہرے پر کھدی ہوئی ہر سطر سے باہر تبدیل ہو جاتا ہے۔ چند زیر و زبر کی تبدیلیوں کے ساتھ جائز ناجائز کی تشریح ہر معاشرت میں مل جائے گی۔ مگر معاملہ کچھ اور توجہ طلب ہے







"Homelessness is not from from life but society's attitude to honor life." A.B. Saim





کمائی اہم ہے ، مگر ایک چھپی ہوئی حقیقت یہ ہے کہ اس کا خرچ بھی یکساں اہم ہے، جائز وسیلوں سے کما کر ناجائز مصارف پر خرچ کرنا، اتنا ہی حرام ہے، جتنا حرام ذرائع سے کما کر جائز کاموں کے لئے خرچ کرنا۔ ناجائز کاموں کی کمائی حرام کاموں پر خرچ ہو تو پیچھے رہ ہی کیا جاتا ہے۔ میں فی الحال یہاں صرف اسی بنیادی نکتے کی بات کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میرے نزدیک جائز آمدن کو جائز مصارف پر خرچ کرنے والے اور ناجائز آمدن کو حرام کرنے والے افراد رنگ کے پکے ہوتے ہیں ، اور ان دل یا سفید یا کالا ہو چکا ہوتا ہے۔ مسئلہ ان لوگوں کا ذیادہ ہے ، جو جائز کما کر بھی سمجھ سے عاری رہتے ہیں، شیطان ورغلاتا ہے، " بھائی اپنی کمائی ہے، باپ کا کیا حق،۔۔غریبوں میں بانٹ دو گے، ان کے باپ کی کمائی ہے کیا" ۔۔اچھا اپنے پیسوں سے جوا کھیلتا ہوں، کسی کی چوری تو نہیں کی۔ بلکہ شیطان ذیادہ پاس بیٹھا ہو ، تو آپ کو گانا گانا بھی آ جاتا ہے۔۔


"ہنگامہ ہے کیوں برپا، تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا، چوری تو نہیں کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔-۔۔۔"




"We should appreciate cost of time rather than watches." A.B. Saim


حقیقی معانی کی بات کسی حقیقی دنیا میں کریں گے ، ابھی تو قصہ سڑک پر چلتے ان انسانوں کا ہے، جو اپنی خون پسینے کی کمائی کو اس لئے اڑا دیتے ہیں، کیونکہ وہ ان کی اپنی کمائی ہوتی ہے۔ سمجھنے کے لئے ایک مثال اور عرض کر دیتا ہوں ۔ نئے سال کی آمد پر ہوا میں پیسے یوں اڑائے جارہے ہوتے ہیں جیسے ان سے کسی غریب کی دوائی نہیں خریدی جا سکتی، جیسے ہمسائے کے سات گھروں میں کوئی بھی بھوکا نہیں سویا، جیسے تام مریض کھانسی کا شربت پی کر سوئے ہیں، جیسے گلی کے نکڑ پر سوئے ملنگ نے نیا کمبل پہنا ہوا ہو، جیسے محلے کے سارے بچے اسکول جانے لگ گئے ہوں۔۔ حرام کی کمائی کی تو میں بات ہی نہیں کرتا، میں تو ان سے مخاطب ہوں ، جو رزقِ حلال عین عبادت سمجھ کر کماتے ہیں، خون پسینے سے آمدن اکٹھی کرتے ہیں۔ کس نا سمجھی سے اپنے جائز مال کو برباد کر آتے ہیں، اور ساتھ فرناتے بھی ہیں ، بھائی اپنا روپیہ لگایا ہے ، حق حلال کی کمائی سے۔۔۔جسے خود اپنی کمائی کا احساس نہیں ہے، اس کی آمدن کا احساس خدا کو کیا ہو گا۔۔





"Its far better to spend money for eliminating others woes rather than over-celebrating your own joys." A.B. Saim


دوسری طرف ایک اور خود فریبی میں مست طبقہ ہے ، جو ناجائز ذرائع سے آمدن کما کما کر جائز مصارف پر جزوی یا مکمل طور پر خرچ کرتا ہے، اور سمجھتا ہے، کہ خدا کوئی رشوت خور پٹواری ہے، یا راشی تھانیدار جو اپنا حصہ وصولنے کے بعد چپ چاپ بیٹھ جائیگا۔ سود، ناجائز منافع خوریوں، ذخیرہ اندوزی اور جعلی سامان کی خرید و فروخت سے بنایا ہوا کالا دھن جب دل کی مٹی سیاہ کرنے لگتا ہے، تو شیطان یہاں پھر اپنا جال پھینکتا ہے، آدمی چار ٹکے کسی خیراتِ ادارے کو دے کر ، کسی مدرسے میں کوئی مذہبی محفل منعقد کروا کر یا کسی مسجد کی صفیں ڈلوا کر سمجھتا ہے، کہ لو میں نے تو خدا کو راضی کر لیا۔ اور یوں اس حرام آمدن سے جان چھڑانے کا آخری خیال بھی کسک پیدا کرنا چھوڑ جاتا ہے۔ گناہ گناہ رہتا ہی نہیں۔ مذہب اور نیکی کے نام پر اس کی تاویلیں بن جاتی ہیں۔ ایمان فروشوں کو بکتا دیکھ کر مذہبی ٹھیکے داروں کی زبانیں نکل آتی ہیں ، وہ بھی مسجد کی پچھواڑے میں مسجد کے چندے سے رہائشی عمارتیں تعمیر کر لیتے ہیں، اور غلط کسی کو کچھ نہیں لگتا۔۔۔





" God created food for all, I believe in it more when I see food wasted by rich."   A.B. Saim








یہی شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے، وہ سب کو آدھا غلط کرتا ہے، اور باقی آدھا کسی کا کام کا نہیں رہنے دیتا۔ میں تو یہی سمجھتا ہوں ، کہ جب تک جائز مصارف پر خرچ نہ کی جائے، جائز آمدن بھی حلال نہیں کہلائی جا سکتی۔ اور چاہے لاکھ نیک کاموں میں خرچ کی جائے، حرام طریقوں سے حاصل ہونے والا روپیہ پیسہ جائز نہیں ہو سکتا۔۔ اور اس حرام حلال کی تقسیم میں بنیادی فرق انسان کا ہے، جو اسلام کا روحانی مرکز ہے۔ جسے نہ کماتے وقت نظر انداز کیا جا سکتا ہے، اور نہ خرچ کرتے وقت۔ یہ وہ طرۃ امتیاز ہے، جو مذہب نے انسان کی جھولی میں ڈالا ہے، ورنہ جغرافیائی اور سرحداتی جکڑبندیوں میں الجھی تہذیبیں ایسا کوئی نظام نہیں دے سکتیں ، جس میں جائز و ناجائز سے ذیادہ حلال اور حرام کا فلسفہ موجود ہو۔



" Islam is not a religion, rather its philosophy of life joining man and God together." A.B. Saim








Wednesday, December 26, 2012

روح کی غذا یا موت


روح کی غذا یا موت



" آج سے قریبا  سات سال پہلے کی بات ہے، میں انجینرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اور  لاہور ہی میں مقیم تھا۔۔ مہینے میں ایک دفعہ گھر چار دن کی چھٹی پر جایا کرتا تھا،۔۔ ان دنوں نئے نیے پولی فونک رنگ ٹون اور ویڈیو والے موبائلز آئے تھے ، سو پیسے جوڑ توڑ کر میں نے بھی  سونی اریکسن کا ایک موبائل لے لیا، اور چند ایک ٹیونز کاپی رکھ لیں جو یقینا گانوں کی دھن پر تھیں۔۔ اس دور میں اکثر لوگوں نے گانے بھی رنگ ٹیونز پر لگائے ہوتے تھے، جو مجھے یقین ہے اب بھی لگائے جاتے ہوں گے۔۔ خیر میں اپنا نیا موبائل لے کر اپنے گاوں کی پرانی حویلی میں جب نانا ابو سے ملنے گیا، تو انہوں نے میرے موبائل کی خاصی تعریف کی، جب تک وہ بجا نہیں۔۔ برکت کی دعا بھِی کی۔۔۔٫
مرے نانا ابو ، اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آج کی نسل سے تو ہزارہا راسخ العقیدہ اور با عمل انسان تھے،۔۔ مجھ سے نہایت شفقت کرتے اور گھنٹوں پاس بٹھا کر دھویں بھری انگیٹھی کو سلگاتے ہوئے نصیحتیں کیا کرتے۔۔۔۔مری سانس کو

چھونے والے آج بھی اس دھویں اور ان نصیحتوں کی بھینی مہک محسوس کرتے ہیں۔۔۔
خیر ، ہوا یوں، کہ نانا جان، خاندان کے کچھ ذیلی امور پر بات کر رہے تھے، کہ مرے موبائل پر کال آ گئی ۔۔کوئی گانے ہی کی ٹیون تھی ، یاد نہیں۔۔۔ بس پھر کیا ہونا تھا، روایات، انا، مذہب پسندی اور آدابِ مجلس کا خون مرے ہاتھوں ہوتا دیکھ کر, ان کے سفید چہرے پرسرخی اتر آئی۔۔۔ میں نانا ابو سے ڈرتا بھی تھا، اور ادب بھی سکھایا ہے مجھے ماں باپ نے، سو سر جھکا کر ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔۔۔ بس ایک جملہ یاد رہا مجھے ۔۔۔جسے لکھنے آ بیٹھا ہوں۔۔۔۔ "یہ شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ۔۔۔"




مری بدنصیبی کہئے کہ میں دائرہ اسلام میں ابھی اتنا ہی داخل ہوا ہوں کہ ساز وآواز سے مجھے نفرت محسوس نہیں ہوتی، مگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں اور حتی الوسع بچنے کو  نیکی بھِی گردانتا ہوں۔۔۔ نانا ابو کی یہ بات کہ " شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ"  ، پچھلے جمعے انجانے میں مجھے یاد آ گئی اور میں برف ذدہ سڑک کنارے سوچتا گیا، کہ انہوں نے کتنی باتیں درست کہیں تھیں۔۔۔ یقینا جب ہم موبائل خریدتے ہیں تو اس میں ٹیونز تو ہوتی ہی ہیں۔۔۔ غیر شرعی نہ سہی، ثواب کا کام تو کوئی نہیں کہہ سکتا انہیں۔۔۔۔ ایک قدم اور آگے چلیئے، گانوں کی ٹیونز کر لیجئے، ہرج کیا ہے۔۔۔اور آگے بڑھتے ہیں، کالنگ ٹیوںز میں بھِی کیا مضائقہ ہے۔۔۔ رکئیے مت جی، الارمز پر بھی گانے لگا لیجئیے۔۔۔خدا نے عقل دی ہے تو کوئی سریلا سا گیت ہوگا، ورنہ اوم جے جگدیش ہرے جیسی کمپوزیشن کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔
اب میں عاقبت نا اندیش بیسویں صدی میں ان ترقی کے لوازمات اور سائنس کے معجزات سے منکر ہو کر تو مسجد سے بھِی
باہر نکل نہیں سکتا ۔۔۔۔ چلیں یوں بھی سہی۔۔۔۔۔مانے لیتے ہیں۔۔



مگر مری بات بھی تو سنئے، امامِ مسجد خطبہ جمعہ پڑھ رہے تھے، قرآن کی آیات ہمارے دلوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو شاید
 کام کی تھکن سے اونگھ رہے تھے۔۔ اسی دوران ایک سام سنگ گلیکسی نے اپنی سریلی آواز میں میڈونا کا کوئی سُر بھرا گیت چھیڑ دیا، کیا کمال کی جھنکار تھی ، اس میں ۔۔۔ٹیون اچھی تھی۔۔۔لیکن ایک دم مجھے لگا کہ جیسے نانا ابو کے چہرے پر وہی پرانی روایات پسندی اور مذہب شناسی کا خون سا دوڑا ہو، سچ یہ ہے کہ مجھ سمیت کئی ایک چہرے اسی کیفیت سے دوچار تھے۔۔

میں نے نظر اوپر اٹھائی تو خطیبِ مسجد کے چہرے پر بھِی پرانی حویلی کی بوسیدہ روایات جیسا غصہ پایا۔۔۔ واہسی پر جب برف میرے بوٹ کے تلووں سے رگڑ کھا کھا کر پگھل رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا، کہ آہستہ آہستہ زہر جسم میں کیسے پھیل جاتا ہے۔۔ کل سات سال پہلے مرے نانا بزرگوں کی محفل میں گانے کی ٹیونز پر برہم ہوئے تھے تو مجھے یہ آواز شیطان کی آواز محسوس نہیں ہوئی تھِی، آج جب مسجد کے احاطے میں سروں کے سرگم جاگے ہیں تو ضمیر کی کونسی سوئی ہوئی حس جاگی ہے ۔۔۔۔ سیدھا سا سبق ہے کائنات کا ، گناہ، برائی راستہ بنانے کے لئے ہمیشی پہلے حجتوں، اشکالات اور حیلوں کا سہارا لیتی ہے۔۔ ایک دفعہ ایسا کوئی ناگ ڈس جائے ، زہر پھیلتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ معصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔۔ اور یہی ہوا۔۔۔۔ مسجد کے احاطے میں بیٹھے شخص کا فون بجتا ہے، آذان مر جاتی ہے ، ڈسپلے سکرین پر گرل فرینڈ کا مسیج تصویر کے ساتھ ابھرتا ہے تو نماز کا سر ننگا ہو جاتا ہے۔۔ انہیں موبائلز میں
گندی فلمیں اور تصاویر بھِی ہمارے ساتھ مسجد میں داخل ہوتی ہیں ، مگر ہمارا وضو نہیں ٹوٹتا۔۔۔۔۔















ارے ظالمو، تمہارا میوزک برا نہیں ہے، گانے بھِی تمہیں حلال ہوں گے ، میں بحث نہیں کرتا۔۔ اور اس میں جیسی چاہے واہیات چیزیں جمع کر رکھو، مگر خدا کے لئے ، خدا کے گھر کو تو معاف کر دو۔۔۔۔ کیونکہ جب زہر دل تک پہنچ جائے تو موت یقینی ہوتی ہے ، جیسے میرے نانا نے کہا تھا اور میں نے دیکھا، کہ موبائل کا فساد گھروں میں برپا ہوا اور گھر برباد ہوئے۔۔ اب خدا کے گھر کو برباد کرنے چلی ہے دنیا تو یاد رہے، قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے، کہ خدا کے گھر میں موسیقی کے آلات بجیں گے۔۔۔۔۔ پہلے تو گلیوں میں بجتے تھے اور نمازی تنگ آ کر لعنت بھیج دیتے تھے ، اب تو اللہ کے گھر میں بجنے لگے ہیں۔۔۔۔۔ آج سات سال بعد مجھے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ مرے نانا ابو کے چہرے پر خون کیوں اتر آیا تھا اور انہوں نے کیا دیکھ لیا تھا جو مجھے آج نظر آ رہا ہے۔۔۔"

ایک نکتہ اور بھی آج واضح ہوا، کہ جو کام مسجد کےاحاطے میں شرمساری، غصَے اور سبکی کا سبب بنا ہو ، وہ نیکی تو ہونہیں سکتا، اور اگر موسیقی کی یہ تال میل، سر سنگیت مسجد کی چاردیواری میں غیر معتبر ہیں تو ، باہر کیسے معتبر ہوگئے ۔۔۔ نیکی اور گناہ کی شدت پر مقامات اور مواقع اثر کرتے ہوں گے، مگر ان کی نوعیت کو بدل دیں ، جائز کو ناجائز کر دیں ، ایسا ممکن نہیں۔۔۔،، سادھی سی بات سمجھ آئی کہ اگر ساز و آواز درست ہے، تو پھر خدا کے گھر میں بھی بجا ہے، اور اگر خدا کے گھر میں سکون ڈھونڈنے والی روحوں کے چہرے اسے سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں تو ، پھر یہ گاوں کی پرانی حویلی میں بھی غلط ہیں، بوڑھے نانا دادا کی مجلس میں بھی مکروہ ہیں اور انگیٹھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہر اس فرد کے لئے غلط۔۔ جس کے بزرگ اسے ڈانٹ دیتے ہیں۔۔۔۔اور یہی حال ہمارے اندر اترنے والی ایسی بے شمار اور برائیوں کا ہے جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ طیش میں آجاتے ہیں، اور ہم عیش کو جی سے لگائے زہر کا گھونٹ پئے آگے چل دیتے ہیں ، جہاں سات سال بعد اس زہر کا اثر رنگ دکھانا شروع ہوجاتا ہے، مگر ہم لاچار کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ بس کسی سلگتی ہوئی انگیٹھی کے کنارے بیٹھ کر ڈانٹ سکتے ہیں۔۔۔۔کھانس سکتے ہیں۔۔۔۔۔بس


Monday, December 24, 2012

Des in Perdes: A Report on Pakistan Culture Day in South Korea






Pakistan Cultural Expedition : Rohi Celebration

A Report By Muhammad Abdul Basit

Pakistan Community in Korea


December 22nd Saturday afternoon was a delightful and prestigious hours of daylight in South Korea for Pakistani Community, as we were given an exclusive opportunity to exhibit our cultural diversity to the international community at Korea, especially those who were resident in Seoul and its nearby. Seoul Metro-Politian Government, the main financial supporter of the event contributed a lot for the beautified  execution of Pakistan Cultural Expedition event and played a highly appreciate-able role in making this accomplishment  possible. Mr. Im Kyoung Ho from Seoul Metro-Politian Government did a splendid job through his unique motivation and personal involvement.




Being the sons of soil, Pakistani community volunteers made this event a benchmark for very minorly populated Pakistani Nationals in South Korea and designed a beautiful thought inside the minds of international community people.  Miss Julia who is a Kazakhstan National said that evening that for hwe it was a nice and informative session  to know about the rich and versatile culture of Pakistan, which she evaluated to be far away from presently depicted picture in media these days. She also said that, " I am glad that Pakistani community finally got a chance to show themselves and introduce its culture. Performances were energetic, emotional and family like. I liked what it meant for students. Their faces were shining. Dances reminded me how we celebrate our special holidays in Kazakhstan."




The Event started with the recitation of Holy Quran, as Pakistan is an Islamic country and is customized to start official and non official ceremony in such fashion. Soon After Miss Saera Shabbir with her acquiescent words sung a few lines in the praise of Holy Prophet Muhammad (Peace be upon Him). The Secretary staging the performances shortly introduced the Pakistani Culture in context of the event organization and  invited the Chief Organizer Mr. Shahzad from Hanyang University for his Welcome Speech.  Thanking to the Seoul Metro-Politian Government,  Mr. Shahzad also welcomed the attendees of the session and announced the formal start of the event. He said that It was a remarkable chance for him and his team to artistify the hidden charm of their homeland and bring the international community together with a message of peace and love. He also showed all his respect to the Seoul Metro-Politian Government for scheming such policy and inviting cultural excursions.





In the formal Session, four provincial dance performances enlightened the multi-color dressing and  instrumental spring of music. In-between various video presentations were displayed using projection tools to let the audience know about the land features and seasonal beauty of Pakistan. Also, the awards and honors of Pakistan were compiled in videos for the participants, who were really overjoyed to feel the beauty and hidden angelic face our heavenly land. More than a hundred Participants belonging to different countries including Bangladesh, India, Kazakhstan, China, Vietnam, Iran and most obviously from Pakistan and Korea not only waved their hands with the melody of these performances but their hearts too. Organizationally Transnational Asian Women, Pak-Korea and PSA South Korea also attended this cultural expedition prgram. Despite of the limited human resources and close-hall type of event, many communities were attracted to the occasion.





The formal session of day was concluded here, and people were requested to visit the Pakistan Cultural stalls, those were structured within the hall selected for the cultural day. Pakistani Dresses , Jewelry, Traditional shoes, ornamental objects, antiques, paintings, handicrafts, regional handmade fabric items like Sindhi Topi, Chadar and others were displayed for the visitors. Also, there was a HINA stall free for ladies to have hina (Tattoo-similar) designs on their hands, where foreigners took more than interest. There were many posters and banners displayed showing the various aspects and information of Pakistan as a unique civilization.



After the formal Session and stall visit, the participants were reseated to share the informal session being full of fun, amusement and interactivity. Many questions regarding Pakistan Culture and presentations were asked by Mr. Hasan Hafeez, who was hosting this session and the participants were gifted for their tasks and right answers. Lastly the session was concluded with the formal remarks from Organizers and participants were offered Desi (Pakistan) traditional Food, that was highly tasted and spicily enjoyed as last activity of the day.


Although the cultural day ended here, but the immortal feeling of love, respect and mutual understanding originated from the sun setting that day among variant nationals. Precisely, it was a limited episode of bilateral effort made by Seoul Metro-Politian and Pakistan Community, but a never ending motivation to bring the hearts and feels together for the sake of local and global objectives of humanitarianism. Long Live Pakistan, Long Live Korea



Organizers from Pakistani community, mainly comprising of Pakistani Students in Korea voluntarily  came forward and portrayed a long lasting image of their cultural and national veracity. Pakistan is a country of 180 Million people having multi-linguistic, sundry regional traditions and a variety of cultural substances including art, dances, songs, sports and foods. Pakistan is one of the few countries having all four seasons with their epical beauty and all possible geographical and climatic themes over its strategic piece of land. In this event, it was attempted to present as detailed picture of Pakistan as possible, pixling the every bit of this God-Gifted soil.

No culture is ever complete without musical essence of poetry and songs. Pakistani culture like others has a long series of musical trends branched in regional, spiritual and folk streams of love. Covering them all, Sufi Song , Musical song from Pakistani talent and a Pakistani Urdu Song was presented to feel the heart beat of a spiritful nation. Also some poetry was shared with the audience to touch the literary limits of socio-cultural Pakistan. Maintaining the decorum of Multinational gathering, an English  Song was also sung by a participant, that was highly enjoyed by the Non-Pakistani attendees as well as Pakistani community present.





The other awe-inspiring  feature of this afternoon was B-Boys Dance group performances, who additionally raised the level of fun and interest higher that afternoon. They performed two dances separated by an interval of half an hour and involved all the hearts leaving behind the cultural contrasts of various nationals attending the event. Also A solo-performer Mr. Ali Ahmed from Pakistan Student Community in Korea hold the stage for few minutes with his funny and multi-linguistic skill of pleasurable joy. 




After the ending of Pakistan Cultural Expedition Event, Mr. 최한락 said that Food was good, Performance was very lively and energetic. One of the visiting participants was overjoyed with the event day and she shared her feeling in these words, "I would like to go again, If I get a chance." Her name is 류건욱 and she is a Korean.







Note: This report is released for submission to Seoul Metro-Politian Government , also for  international electronic media publicity and press-media in Pakistan.