Wednesday, February 27, 2013

پرِ پروازِ ایمانی



پرِ پروازِ ایمانی

[ عبدالباسط صائم]







" ایمان ایک پرندہ ہے ، جس کے دو پر [ بازو] بلاشبہ امید اور خوف کے ہیں۔ خوف اور امید فرد کی ذات کے ارتفاعی سفر میں

نہ صرف پرِ پرواز کا کام کرتے ہیں، بلکہ قوموں اور معاشروں کی زندگی کا ارتقاء بھی انہی دو اجزاء کے توازن سے مشروط ہے۔ مذاہب کی شرح کی چھان پھٹک کی جائے ، تو یہی دو جہتی حقیقت پر پھیلائے نظر آتی ہے۔ جسے جزا اور سزا کی تراکیب سے منکشف کیا گیا ہے۔



ہر وقت خوف کی کیفیت میں رہنا، یا نا امیدی کا پروان چڑھنا ، ذات سے لے کر تہاذہب تک کو صفحہِ ہستی سے نابود کرنے کا سبب ہے۔ اور دوسری طرف خوش امیدی اور بے خوفی کو طرۃِ امتیاز سمجھنا جہل ہے۔ کسی کا یہ گمان رکھ لینا کہ وہ اپنی ذات ، اوقات اور حالات کی زمین پر آسمان کی طرح بلند کھڑا ہے اور اس کی امید کے شجر کو خزاں کا کوئی خوف ہی نہ ہو، دراصل وہ گمراہی ہے جس کا شکار ہو کر انسان بالاخر رذیل اور معاشرے ذلیل ہوا کرتے ہیں۔ غرور صرف خدا کی ذات کو زیب ہے۔ اور جب اپنی ذات کی امید ایمان کے جزوِ خوف سے بالاتر ہو جائے تو فرعونیت بن جاتی ہے۔ جسے بہر کیف دریا برد ہونا ہی پڑتا ہے۔




دوسری طرف خوف اور ناامیدی کی ایسی فضاء قائم کر لینا، کرنے کی کوشش کرنا یا اس کا پرچار کرنا جس میں امید کی کرنوں پر بھی رات کی سیاہی رنگی جا رہی ہو، ایمان کے لئے آلہ قتل ہے۔ مایوسی کا کفر بھی اتنا ہی قاتل زہرآمیز ہے ، جتنا خوش گمانی کی فرعونیت۔۔ امید خدا ہے ، اور خدا امید۔ جہاں عقل اپنے اسباب کی میتوں پر بین کر رہی ہوتی ہے، عین وہیں امید اولاد جن کر مستقبل کے نہ ہونے میں بھی ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ خوف اور امید باطن سے ظاہر تک فطرتِ انسانی کا حصہ ہیں ، گو کہ فرد اور معاشروں کے علمی و عملی مقام کے زیرِ اثر ان اجزائے ایمانی کے تناسب میں فرق ممکن ہے ، مگر کسی ایک پر کے سہارے طائرِایمانی کی پرواز اور درست سمتی کا دعویٰ ہرگز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔
ہمارے یہاں معاشروں میں مذہبی اور قومی سطح پر ایمان یعنی خوف اور امید کے حوالے سے ایسی افراط و تفریط کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، کہ نہ فرد کا ایمان قائم ہے نہ ایمان کا فرد۔۔


کسی نے امید کا دامن تھاما ہے، تووہ عشق کے نام پر، یا سید ہونے کے نام پر، گدی نشینی کے طرۃ امتیاز پر منسوب ہونے کی وجہ سے اور کبھی مسجد و مدرسہ کا والی ہونے کے زعم میں ایسا بے خوف ہوا ہے ، کہ ایمان کے پرندے کو خوف آنے لگتا ہے ۔ ایمان کی پرواز گنبدوں محرابوں میں کھو کر رہ گئی ہے اور ایک پر کے سہارے ارتفاع اور ارتقاء کا سفر پہیلی بن کر رہ گیا ہے۔۔۔۔امیدوں کے ایسے ایسے پہاڑے پڑھائے گئے ہیں ، کہ سہل طبع قائدین امریکہ جیسے ملک کو مکھی کے برابر بھی نہیں سمجھتے اور چادر کو دیکھے بنا اتنے پاوں پھیلا لیتے ہیں ، کہ اپنا ہی ننگا پن نظر آنے لگتا ہے۔ 




دوسری طرف خوف کی لاٹھی کے سہارے زندہ افراد اور ان کے نظریوں نے ایمان کو اس امید سے محروم کر دیا ہے ، جو بے تیغ لڑنے کا راز بھی ہے ، اورپرِ پرواز کو حرام کے رزق سے بچانے کا وسیلہ بھی۔۔ ان کی عینک کا نمبر بھی خوف کی گنتی میں شمار ہوتا ہے۔ اور امید انہوں نے گلی میں رہنے والی طوائف کا نام رکھا ہوا ہے۔ یہ بھی فرد میں مایوسی کا کفر اور قوم میں انتشارکا سبب ہیں۔ مرض کی تشخیص کے نام پر یہ دل کے مریضوں کا دل نکال کر انہیں دکھاتے ہیں اور ہر مریض کو دکھاتے ہیں، جسے گھٹنے کا درد ہو اسے بھی۔۔ یہ تو قومی زعماء ہیں۔۔ مذہبی لوگوں میں بھی ایسے شاہین پرواز لوگوں کی کثرت ہے، ان کا وعظ جہنم سے شروع ہو کر دوزخ پر ختم ہوتاہے۔ اور ایک برائی کے بدلے یہ دوسروں کو ان کی تمام نیکیوں سمیت ہاویہ کا ٹکٹ تھما کر ہی صدق اللہ العظیم کہتے ہیں۔۔ ان کے ایمان کے پرندوں میں خوف کا جزو غالب ہے اور امید ناپید۔۔



اللہ رحیم بھی ہے، منتقم بھی، رزاق بھی ہے اور ستار بھی۔۔۔ امید اور خوف کےپروں پر اڑنے والے پرندے کو سنبھال کر رکھئے ، شیطان نے جال پھیلا رکھے ہیں ، فقظ امید کا جال۔۔۔۔۔ فقط خوف کا جال۔۔۔۔۔ اور اسی طرح شیطان کے چیلوں نے زمین پر ابلیسی مسند سنبھال رکھی ہے۔۔۔۔۔ کوئی خوش گمانی میں دھکیل کر گمراہ کر رہا ہے اورکوئی مایوسی کا خوف مسلط کر کر کے مستقبل کو کافر کرنے پر تلا ہے۔۔۔۔۔ اپنے ایمان کے خوف کو سپہ گری کا فن سکھائیے اور اپنی امید کو بے تیغ لڑنے کا راز سمجھائیے، نہ کوئی فرد کے ایمان کا بال بیکا کر سکے گا اور نہ کوئی افراد کے پاکستان کا کچھ برا کر سکتا ہے۔۔۔۔"

[[ اقتباس از مٹی کے جگنو: عبدالباسط صائم ]]

1 comment:

  1. it is very beautiful reality .............i hv no words to admire it .......................

    ReplyDelete