Sunday, March 16, 2014

ایک تصویر ، دو کہانیاں

زیرِ نظر تصویر کوریا میں پاکستان کلچرل فیسٹیول کے دوران ایک کوریائی فوٹوگرافر کی پیشکش کے طور پر رکھی گئی تھی۔۔۔میں جب فیسٹیول کو اپنے موبائل کیمرے کے ذریعے محفوظ کر رہا تھا ، میری نظر سے یہ تصویر گزری تو ایک لمحے کو میں خود تصویر ہو گیا۔۔۔ تھوڑی دیر تک جو ایک اطمینان تھا، کہ چلو، پاک دھرتی کے لئے کچھ نہ کچھ ، ذیادہ نہیں بہت تھوڑا ہی سہی، اچھا نہ سہی ، ٹوٹا پھوٹا ہی سہی ، ہم کر رہے ہیں، یا کم سے کم کرنا چاہتے ہیں، تصویر کی منجمند کہانی میں جم کر رہ گیا اور میں بھی شاید کچھ لمحے کے لئے منجمد ہو گیا۔۔ اس میں میرا کوئی قصور نہیں، شاید شعریت کی فطرت انسان کو جذبات کی لہروں میں غرقاب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔۔۔۔اور میں بھی کہانی دیکھ رہا تھا، ایک جو صرف کورین کی آنکھ نے دیکھی تھی اور ایک جو اس وقت میری آنکھ میں پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔۔
گینگ نیونگ کا سبزیلا ساحلی علاقہ۔۔۔۔ اس کے بیچوں بیچ کلچرل فیسٹیول کا خوبصورت میدان ، اس میں پاکستانی کھانوں ، کپڑوں اور خوبصورت چہروں کی بہار ، پسِ منظر میں قومی ترانوں کی دھنیں اور لہراتا ہوا سبز ہلالی پرچم۔۔۔۔ سبزیلا میدان اور اس میدان کے عین درمیان میں یہ تصویری نمائش جو ایک کورین فوٹو گرافر اور اس کے کیمرے نے پاکستان سے محبت میں چوری
کی تھی۔۔۔اور ان تمام تصویروں میں یہ ایک تصویر ، جس کی ایک کہانی تو ختم ہونے والی ہے۔۔۔۔ جو میں لکھ کر سنا رہا ہوں۔۔۔ یا شاید وقت کے ہاتھوں سے پڑھ کر لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔میں نہیں جانتا، کتنے کورینز نے یہ تصویر دیکھی، کتنے پاکستانیوں کی نظریں یہاں ٹکرائیں، کتنی آنکھوں نے اداسی کی سانس بھری ۔۔۔۔
مگر میں کہ ، ۔۔۔۔ دنیا ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
شاعری کا بوجھ اٹھائے کھڑا تھا ۔۔ مرا کام مجھے آوازیں دے رہا تھا، مگر لمحے مری دسترس سے نکل چکے تھے۔۔۔مجھے دوسری کہانی کی ساری سطریں پڑھنی تھیں۔۔۔۔
دوسری کہانی دوسری تصویر ہے۔۔۔۔۔ جو میں نے بنائی ۔۔۔جو آپ کے سامنے ہے ۔۔۔۔اس تصویر کی تصویر۔۔ جس کے پس منظر میں کوریا کی بلند شگاف عمارتیں واضح ہیں۔۔۔۔ پہلی تصویر جو کورین نے بنائی اسے صرف پاکستان کا ایک سپاہی دکھائی دیا ، جس کے پیچھے تباہ شدہ گاڑیاں۔۔۔ دھماکوں کی زد میں آنے والے افراد اور ان کے خون سے رنگی ہوئی سڑکیں۔۔۔اور ہوا میں دھویں کے کچھ زرات جو شاید ذیادہ واضح نہ ہو سکے ہوں۔۔۔۔ اس کورین نے جانے کیا کچھ سوچا ہوگا جب یہ تصویر بنائی ہو گی۔۔۔ ہم پر ترس بھی کھایا ہو گا ، کہ اتنے خوبصورت ملک کا نصیب کتنا برا ہے۔۔۔۔جیسے کسی غریب گھر میں پیدا ہونے والی کسی خوبصورت دوشیزہ کا مقدر ہوتا ہے۔۔۔۔ شاید اس نے گالی دی ہو، ان لوگوں کو جنہوں نے یہ عفریت کا سامان پیدا کیا ہو ، شاید اس نے حکمرانوں کو برا بھلا کہا ہو، شاید اس نے بین الاقوامی جنگ کا شاخسانہ سوچ کر یہ منظر عکس بند کئے ہوں۔۔۔۔۔ شاید مذہبی عدم برداشت دکھانا چاہتا ہو۔۔۔ شاید ہماری آرمی اور پولیس کی نا اہلی کا خیال اس کے دل میں جنم لے کر کیمرے تک آ گیا ہو۔۔۔۔شاید وہ خوف اور بے چارگی کو تصویر کرنا چاہتا ہو ، جس اس پولیس والے کے چہرے پر واضح نظر آرہا ہے۔۔۔۔ شاید ان لوگوں کا دل دکھانا چاہ رہا ہو، جن کی گاڑیان جل گئیں اور رشتہ دار دھواں ہو گئے۔۔۔ میں نے اس کو تلاش کیا، کہ اس سے پوچھوں اس نے کیا سوچ کر یہ تصویر بنائی،۔،،،،یا یہ تصویر بنا کر کیا سوچا۔۔۔۔مگر وہ مجھے نہیں ملا، کہ وقت کی کمی تھی اور فیسٹیول کی ذمہ داری بھی کچھ سر پر تھی ۔۔اس لئے اس خیال کے پیچھے زیادہ نہ دوڑ سکا۔۔۔۔
مگر جو تصویر مجھے نظر آئی ، مجھے اس کی کہانی روکے ہوئی تھی۔۔۔۔ اور آج لکھے بنا نہ رہ سکا۔۔۔۔ مری تصویر میں ایک نہیں ، دو پس منظر ہیں۔۔۔ ایک وہ جو کورین نے بھی دیکھا اور میں نے بھی دیکھا۔۔۔۔ اور دوسرا وہ جو شاید اس فوٹو گرافر نے نہ دیکھا ہو، اور مجھے ملا تو میں اس دکھاوں گا بھی۔۔۔۔۔ وہ میں آپ کو دکھانے جا رہا ہوں۔۔۔۔
میری تصویر میں ایک نہیں دو پسِ منظر ہیں۔۔دوسرے پس منظر میں وہ بلند شگاف عمارتیں ہیں ، جو مرے تباہ حال سپاہی اور مفلوک الحال زمیں کی کی گود میں پڑی ہوئی تباہ شدہ گاڑیوں کی کہانی کو کچھ اور الجھا رہی ہیں۔۔۔ کچھ اور استہزاء کر رہی ہیں۔۔۔ کچھ اور دل جلا رہی ہیں۔۔۔۔ تصویری مفہوم تو یہی ہے ، کہ ترقی اور تہذیب کے درمیان ان دھماکہ زدہ لمحوں اور تباہی و بربادی کا ایک طویل عمیق سمندر ہے ، جس نے ہماری قوم اور اس کے محا فظوں کو امن و سلامتی سے دور دھکیل دیا ہے۔۔۔اور یہ فاصلہ طے کئے بنا شاید کبھی منزلیں اب نہ مٹ سکیں۔۔۔ لیکن بات کچھ اور بھی تھی جس نے مرے قدم روکے رکھے۔۔۔ وہ یہی کہ اس وسیع و عریض میدان میں بھی ایک آئینہ موجود تھا،، جو مجھے میری تصویر دکھا رہا تھا، جس کی کہانی مجھے مرے قلم سے مجبور ہو کر لکھںا پڑی اور وہ یہ کہ ابھی بہت راستہ ہے طے کرنے کو۔۔۔ابھی بہت دور ہے منزل اور سویرا۔۔۔۔ یہ نہیں کہ امن و امان، یہ نہیں کہ تہذیب و تمدن، ٹیکنالوجی صرف ، بلکہ کورین تصویر سء میری تصویر کا تمام فاصلہ ۔۔۔اس کی آنکھ سے میری آنکھ کے درمیان میں تمام مدو جزر۔۔۔۔۔
مجھے یاد آرہا تھا،

اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو،
سفالِ ہند سے مینا و جام پیدا کر۔۔۔۔
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی۔۔۔۔

مجھے وہ تمام اجزائے ہستی بکھرے بکھرے نظر آئے ، جن پر معاشرت کشیدکر جاپان کے تلوے چاٹ کر زندہ رہنے والی قوم ، ہماری بے بسی پر شاید ہنس رہی تھی۔۔ مجھے کوریائی تہذیب اپنے پاوں پر کھڑِی نظر آئی اور اپنے لوگ اپنی ہی نظروں میں گرے نظر آئے۔۔۔ مجھے ترقی کا سفر کبھی بھی مطمعِ نظر نہیں رہا ، مگر میں تہذیب ، محبت اور امن کو معاشروں کی زندگی اور برتری کا معیار سمجھتا ہوں۔ اور اس معیار پر تنزلی کی ساری گالیاں مجھے اس تصویر میں نظر آ رہی تھیں۔۔ میں اپنے لوگوں اپنی قوم کی غیر سنجیدگی، بے اخوتی ، عدم برداشت ، خود پرستی، لمحاتی جذباتیت ، خود وابستہ بے خودی اور مفاد پرستی سے بہت حد تک واقف ہو چکا ہوں۔۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ غریب ایک روٹی پر ووٹ بیچ دیتا ہے۔،۔ امیر ہر سال کپروں کی طرح عیاشی کا سامان بدلتا ہے۔۔۔۔ فقیر حرام کو حلال کر لیتا ہے۔۔۔ درویش زہد کو گالی دینا فخر سمجھتا ہے ، عاقل تھوک کو بحث اور بحث کو دلیل گردانتا ہے۔ جاہل کو علم طوائف لگتا ہے۔ ملا کو عوام سے نفرت ہے، عوام کو سیاست سے، سیاست کو فوج سے۔۔ فوج کو عدلیہ سے اور عدلیہ کو جانے کس کس سے۔۔۔
بہت فاصلہ ہے ابھی جو اس قوم کو طے کرنا ہے ، نہت سی منزلیں ہیں جو ایک منزل کی تلاش میں پیدا کرنی ہیں۔بہت سی قربانیاں ہیں جو اس قوم کو دینا ہیں، مگر بہت سےے خدشے ہیں جو میرے ذہن میں اس تصویر کو دیکھنے کے بعد در آئے۔۔۔ کہ کیا ہم واقعی آگے جانا چاہتے ہیں۔۔ شاید ابھی تک ، نہیں۔۔۔۔۔ یا اگر جانا بھی چاہتے ہیں تو انفرادی سطح تک بحیثیتِ قوم نہیں۔ اور یا پھر ابھی تک ہم عملی طور پر اس کے لئے تیار نہیں۔۔ کیونکہ میں جانتا ہوں، کہ جاپان کا جھوٹا کھانے ، اور غربت کی ننگی گلیوں سے ترقی اور امن کی اعلیٰ منزل تک پہنچنے کے لئے کوریا کے افراد نے جن خواص کو سہارا لیا ، وہ ہمارے عوام میں تو کیا ، ان خواص میں بھی نہیں ہے ، جو ملک اور ملک کی تقدیر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔۔۔۔
میں اپنی تصویر کی کہانی میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں ، کہ کوریا کی اس بلند عمارت کی بنیادوں میں محنت اور مقصد کے تیس سال دفن ہیں ، لاکھوں قربانیوں کی تصویریں موجود ہیں، جو میری کہانی سے ذیادہ دردناک رہی ہوں گی۔۔۔۔ملک کے لئے مر متنے کا جذبہ، قوم کے لئے ہر تکلیف اٹھا لینے کی ارادت، مستقبل سنوارنے کے لئے آج کی قربانی، آنے والی نسل کی خاطر اپنا سب کچھ وار دینے کا تہییہ۔۔ مجھے تو یہ سب نظر آرہا تھا اس گراونڈ میں جہاں، ایک طویل مدت بعد پاکستان کے نام پر لوگ جمع تھے۔۔۔
اور میں کہانی کی آخری سطروں میں سوچ رہا تھا۔کہ کیا کبھی مرے پاکستان کی وہ تصویر مکمل ہو گی، جو قائد ، اقبال نے دیکھی تھی۔۔۔ جو ہر محبِ وطن پاکستانی آج سو بار دیکھتا ہے، مگر اس کے لئے کرتا کچھ بھی نہیں۔۔۔ جو کچھ کر سکتے ہیں وہ دامن بچا کر پردیس میں آبیٹھتے ہیں۔۔۔ نوکریاں ڈھونڈتے ہیں۔ چھوکریاں ڈھونڈتے ہیں ، اور پردیس کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔۔۔ جو بچ جاتے ہیں، وہ ذات، مفاد، عدم برداشت ، صوبائیت، فرقہ واریت اور لسانی تعصب کے گھن چکروں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔۔۔ نجانے وہ لوگ کب پیدا ہوں گے جو قوم اور وطن کی خاطر ، فکرِ فردا لئے اپنا آپ قربان کرنے ، دکھ مصائب تکالیف برداشت کرنے، بلند حوصلگی کا مظاہرہ کرنے ، ایثار احسان اور تعان کی زبان بولنے ، خودی کی اطراف ڈھونڈ لانے، اپنا جہان آپ پیدا کرنے اور ملک و ملت کا سہارا بننے کا عہد بھی کریں گے اور عمل بھی۔۔۔۔جو اپنی ذات، اغراض اور سوچ کی زمینوں سے بلند تر ہو کر ہر وقت۔ ہمیشہ اور ہر حد تک مقصد و مطلب سے متعلق ہوں گے۔۔۔جن کی زبانوں پر مسائل نہیں ، ان کے حل ی گردان ہو گی۔۔ جن کے ہاتھوں میں وسائل نہیں، خدمت کی تسبیح ہو گی۔۔۔اور جن کے ماتھے پر پیٹ سے زیادہ بل بڑے ہوں گے۔۔۔۔ جن کو اپنے لئے روٹی کپڑا مکان نہیں اپنے ملک کے لئے مستقبل عزیز ہوگا۔۔ اور جو تنکا تنکا ، قطرہ قطرہ زرہ زرہ امیدیں اکٹھی کر کے آج کے بدلے کل خرید لائیں گے۔۔۔۔۔ ایسے لوگوں کو پیدا کرنا ہی میری تصویر کی کہانی ہے۔۔ کم سے کم ایک آدمی کو پیدا کرنا۔۔۔۔۔خود کو۔۔۔
جو گھر کی خاطر بھوکا بھی رہ سکتا ہو، رات جاگ کر گزار بھی سکتا ہو،/۔۔ پیدل چل کر جھنڈا بھی لہرا سکتا ہو۔۔۔ اور پردیس میں بیٹھ کر دیس کی تصویروں کے آنسو بھی پوچھ سکتا ہو۔۔۔ دل میں اڑنے کا جذبہ بھی رکھتا ہو،۔ مگر شام سے پہلے گھر لوٹ جانے کا عہد نامہ بھی ساتھ لئے پھرتا ہو۔۔۔۔۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

بس تب ہی یہ ممکن ہو گا ، کہ کبھی کوریا میں کوئی فوٹو گرافر پاکستان کی تصویر لگائے ، تو میرے یا آپ جیسے کسی پاکستانی کے قدموں کی رفتار دھیمی نہ ہو،۔ اور اسے ایک ہی تصویر کی دو کہانیاں نہ لکھنی پڑیں۔۔۔۔

موج بڑھے یا آندھی آئے ، دیا جلائے رکھنا ہے
گھر کی خاطر ، سو دکھ جھیلیں ، گھر تو آخر اپنا ہے

انشاء اللہ
پاکستان زندہ باد

Friday, March 14, 2014

Tough but not Rough

"A Story of Higher Education" by M.Abdul Basit Saim

It is the restless nature of human being that inspires him to learn more and more about the hidden truths of nature. Either revealed or not, either told by our predecessors or not, to unfold the mysteries around us  is the inheritance we have from the first day we are in world as earthians.  That is how we learn and  that is why we learn.
There is something to be said about the fact that I learned to read at a very young age. Perhaps it is not entirely true that it changed the course of my life, but I can say for certain that it opened up a world vastly different from my own earlier, I think, than my parents intended.  I always urged to move forward to learn and to earn the money of knowledge considering it a religious esteem as well as socio-moral obligation. But that does not make the story complete as I always possessed a thought of being incomplete in modern day knowledge,  either scientific or socio-religious, without having higher education abroad. To me, knowledge is distributed all around you equally. No matter you learn from silence of trees around you or voices of pen and book placed on the table. My belief of learning did not allow me to look for a white collar job that an engineer usually dreams for , rather I made a tough decisions for myself, but not rough definitely.  
Teaching profession is generally considered to be the last-option choice for engineers when compared to the multi-national offers having highly paid  packages and prosperous service structure with many a fringe benefits. After graduation , in my view, graduates are divided in two categories i.e. one with earning priority and the other with learning priority. Being from the second class of graduates, though first class in merit, learners step forward for higher education keeping social status , family planning and many other features of personal lives aside and opt a longer and higher route  towards success and objectivity of life.  Tough but not that rough ride is more often accompanied with overseas exposure as a scholarly learner or as a science and technology researcher.  In Pakistan,  because of not having that standard and innovative study work at graduation level which is further by dint of substandard  educational system and lack of research facilities, it is more likely to happen that there comes a time gap to pursue higher education after graduation and being accepted for higher education or doctoral studies. I am an eye witness of the fact that many an efforts are gone scraped due to poor research proposals and deficient research background. Till now, it is uncommon to find local graduates with published research work  in internationally recognized journals at graduate level, which so far is forcing Higher Education Commission to invest a huge financial budget on scholars which is estimated to be Rs. 1.4 Billion for the OSS MS Leading to PhD Program, Rs. 550 Million for PhD Fellowships and Rs. 740 Million for Faculty Development Program.
 To my understanding, this MS Leading to PhD policy of HEC is to favor candidates to overcome the barrier of being unsuccessful to secure admissions directly in foreign institutes  due to relatively poor research profile and to enhance the rate of doctoral studies among researchers returning with  professional aims of technological advancement and educational change. Research output out of Pakistan increased by over 50% within two years, which was the second highest increase worldwide. According to Scimago world scientific database, if Pakistan continues at the same pace, its ranking will increase from 43 to 27 globally by 2017.
Studying abroad is truly a tough experience, though not as hard as working or doing labor abroad. In fact overseas experiences always depends on country , field of study, type of scholarship, personality and profile of supervisor and Laboratory environment in specific. But for the sake of generalization , one may categorize it  in two types i.e. English speaking countries and Non-English Speaking countries. Some may assume that if not  in common daily life abroad , at least  Higher education programs would be in English including courses offered, documentation and class communication. But that is not as true as generalized while making plans in Pakistan. Many a countries like Japan, Germany, China, South Korea and others have a contradictory status to the assumed one. Even in some cases , initially scholars have to learn the particular language and then settle in specific professional course. Language barrier to me is the difficult most obstacle that one has to cross along with his or her successful professional studies. Cultural and religious differences also  exist but one with thinking head and living heart  can easily manage with both. "Why donot you drink Vine?" and to "Why do you eat Halal meat only?" are the common most questions put forward to muslim scholars on dining tables while having a party together. It turns very funny sometimes when someone considers muslims to be  vegetarian and sometimes when some-one asks "Do You eat Halal Pork?" In countries where muslims are not in reasonable number , most often it becomes really challenging to manage food and one is forced to do cooking and eating non-fresh food.
Starting from Alien Registration , billing , part time job seeking , hospitalization , shopping and other matters which one would may consider negligible appear as mountain range to cross due to language and culture barriers. Though tough, but all these incidents provide an opportunity to be a part of an adventurous movie rather than watching on a 40 inch Flat LG Screen at home. Inter-religion harmony , cultural diversity , techno-scientific advancement,  psycho and theological disparity among people, artistic intellects , geographical sceneries , legendary wisdoms , humanity focused souls , political milieu and much much more is in front of your eyes and beside your heart to feel , to understand and to capture in the form of conventional memory bites of wisdom. More you learn professionally , more you grow spiritually and socio-psychologically.

Precisely,  opportunity to complete  doctoral studies abroad  is not a chance to be a Higher Degree holder, rather a soulful journey of witnessing the wisdom spread on the face of earth and beyond that. Being away from home is the only way to feel the whole world as our home, all humanity as our relatives, and all knowledge as our own affluence for better and prosperous future.