Wednesday, December 26, 2012

روح کی غذا یا موت


روح کی غذا یا موت



" آج سے قریبا  سات سال پہلے کی بات ہے، میں انجینرنگ یونیورسٹی کا طالب علم تھا، اور  لاہور ہی میں مقیم تھا۔۔ مہینے میں ایک دفعہ گھر چار دن کی چھٹی پر جایا کرتا تھا،۔۔ ان دنوں نئے نیے پولی فونک رنگ ٹون اور ویڈیو والے موبائلز آئے تھے ، سو پیسے جوڑ توڑ کر میں نے بھی  سونی اریکسن کا ایک موبائل لے لیا، اور چند ایک ٹیونز کاپی رکھ لیں جو یقینا گانوں کی دھن پر تھیں۔۔ اس دور میں اکثر لوگوں نے گانے بھی رنگ ٹیونز پر لگائے ہوتے تھے، جو مجھے یقین ہے اب بھی لگائے جاتے ہوں گے۔۔ خیر میں اپنا نیا موبائل لے کر اپنے گاوں کی پرانی حویلی میں جب نانا ابو سے ملنے گیا، تو انہوں نے میرے موبائل کی خاصی تعریف کی، جب تک وہ بجا نہیں۔۔ برکت کی دعا بھِی کی۔۔۔٫
مرے نانا ابو ، اللہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے، آج کی نسل سے تو ہزارہا راسخ العقیدہ اور با عمل انسان تھے،۔۔ مجھ سے نہایت شفقت کرتے اور گھنٹوں پاس بٹھا کر دھویں بھری انگیٹھی کو سلگاتے ہوئے نصیحتیں کیا کرتے۔۔۔۔مری سانس کو

چھونے والے آج بھی اس دھویں اور ان نصیحتوں کی بھینی مہک محسوس کرتے ہیں۔۔۔
خیر ، ہوا یوں، کہ نانا جان، خاندان کے کچھ ذیلی امور پر بات کر رہے تھے، کہ مرے موبائل پر کال آ گئی ۔۔کوئی گانے ہی کی ٹیون تھی ، یاد نہیں۔۔۔ بس پھر کیا ہونا تھا، روایات، انا، مذہب پسندی اور آدابِ مجلس کا خون مرے ہاتھوں ہوتا دیکھ کر, ان کے سفید چہرے پرسرخی اتر آئی۔۔۔ میں نانا ابو سے ڈرتا بھی تھا، اور ادب بھی سکھایا ہے مجھے ماں باپ نے، سو سر جھکا کر ڈانٹ ڈپٹ سنتا رہا۔۔۔ بس ایک جملہ یاد رہا مجھے ۔۔۔جسے لکھنے آ بیٹھا ہوں۔۔۔۔ "یہ شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ۔۔۔"




مری بدنصیبی کہئے کہ میں دائرہ اسلام میں ابھی اتنا ہی داخل ہوا ہوں کہ ساز وآواز سے مجھے نفرت محسوس نہیں ہوتی، مگر میں اسے غلط سمجھتا ہوں اور حتی الوسع بچنے کو  نیکی بھِی گردانتا ہوں۔۔۔ نانا ابو کی یہ بات کہ " شیطان کی آواز اب جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لوگ"  ، پچھلے جمعے انجانے میں مجھے یاد آ گئی اور میں برف ذدہ سڑک کنارے سوچتا گیا، کہ انہوں نے کتنی باتیں درست کہیں تھیں۔۔۔ یقینا جب ہم موبائل خریدتے ہیں تو اس میں ٹیونز تو ہوتی ہی ہیں۔۔۔ غیر شرعی نہ سہی، ثواب کا کام تو کوئی نہیں کہہ سکتا انہیں۔۔۔۔ ایک قدم اور آگے چلیئے، گانوں کی ٹیونز کر لیجئے، ہرج کیا ہے۔۔۔اور آگے بڑھتے ہیں، کالنگ ٹیوںز میں بھِی کیا مضائقہ ہے۔۔۔ رکئیے مت جی، الارمز پر بھی گانے لگا لیجئیے۔۔۔خدا نے عقل دی ہے تو کوئی سریلا سا گیت ہوگا، ورنہ اوم جے جگدیش ہرے جیسی کمپوزیشن کی تو کیا ہی بات ہے۔۔۔۔
اب میں عاقبت نا اندیش بیسویں صدی میں ان ترقی کے لوازمات اور سائنس کے معجزات سے منکر ہو کر تو مسجد سے بھِی
باہر نکل نہیں سکتا ۔۔۔۔ چلیں یوں بھی سہی۔۔۔۔۔مانے لیتے ہیں۔۔



مگر مری بات بھی تو سنئے، امامِ مسجد خطبہ جمعہ پڑھ رہے تھے، قرآن کی آیات ہمارے دلوں کو ڈھونڈ رہی تھیں جو شاید
 کام کی تھکن سے اونگھ رہے تھے۔۔ اسی دوران ایک سام سنگ گلیکسی نے اپنی سریلی آواز میں میڈونا کا کوئی سُر بھرا گیت چھیڑ دیا، کیا کمال کی جھنکار تھی ، اس میں ۔۔۔ٹیون اچھی تھی۔۔۔لیکن ایک دم مجھے لگا کہ جیسے نانا ابو کے چہرے پر وہی پرانی روایات پسندی اور مذہب شناسی کا خون سا دوڑا ہو، سچ یہ ہے کہ مجھ سمیت کئی ایک چہرے اسی کیفیت سے دوچار تھے۔۔

میں نے نظر اوپر اٹھائی تو خطیبِ مسجد کے چہرے پر بھِی پرانی حویلی کی بوسیدہ روایات جیسا غصہ پایا۔۔۔ واہسی پر جب برف میرے بوٹ کے تلووں سے رگڑ کھا کھا کر پگھل رہی تھی تو میں سوچ رہا تھا، کہ آہستہ آہستہ زہر جسم میں کیسے پھیل جاتا ہے۔۔ کل سات سال پہلے مرے نانا بزرگوں کی محفل میں گانے کی ٹیونز پر برہم ہوئے تھے تو مجھے یہ آواز شیطان کی آواز محسوس نہیں ہوئی تھِی، آج جب مسجد کے احاطے میں سروں کے سرگم جاگے ہیں تو ضمیر کی کونسی سوئی ہوئی حس جاگی ہے ۔۔۔۔ سیدھا سا سبق ہے کائنات کا ، گناہ، برائی راستہ بنانے کے لئے ہمیشی پہلے حجتوں، اشکالات اور حیلوں کا سہارا لیتی ہے۔۔ ایک دفعہ ایسا کوئی ناگ ڈس جائے ، زہر پھیلتا چلا جاتا ہے اور معاشرہ معصیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلا جاتا ہے۔۔ اور یہی ہوا۔۔۔۔ مسجد کے احاطے میں بیٹھے شخص کا فون بجتا ہے، آذان مر جاتی ہے ، ڈسپلے سکرین پر گرل فرینڈ کا مسیج تصویر کے ساتھ ابھرتا ہے تو نماز کا سر ننگا ہو جاتا ہے۔۔ انہیں موبائلز میں
گندی فلمیں اور تصاویر بھِی ہمارے ساتھ مسجد میں داخل ہوتی ہیں ، مگر ہمارا وضو نہیں ٹوٹتا۔۔۔۔۔















ارے ظالمو، تمہارا میوزک برا نہیں ہے، گانے بھِی تمہیں حلال ہوں گے ، میں بحث نہیں کرتا۔۔ اور اس میں جیسی چاہے واہیات چیزیں جمع کر رکھو، مگر خدا کے لئے ، خدا کے گھر کو تو معاف کر دو۔۔۔۔ کیونکہ جب زہر دل تک پہنچ جائے تو موت یقینی ہوتی ہے ، جیسے میرے نانا نے کہا تھا اور میں نے دیکھا، کہ موبائل کا فساد گھروں میں برپا ہوا اور گھر برباد ہوئے۔۔ اب خدا کے گھر کو برباد کرنے چلی ہے دنیا تو یاد رہے، قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے، کہ خدا کے گھر میں موسیقی کے آلات بجیں گے۔۔۔۔۔ پہلے تو گلیوں میں بجتے تھے اور نمازی تنگ آ کر لعنت بھیج دیتے تھے ، اب تو اللہ کے گھر میں بجنے لگے ہیں۔۔۔۔۔ آج سات سال بعد مجھے یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ مرے نانا ابو کے چہرے پر خون کیوں اتر آیا تھا اور انہوں نے کیا دیکھ لیا تھا جو مجھے آج نظر آ رہا ہے۔۔۔"

ایک نکتہ اور بھی آج واضح ہوا، کہ جو کام مسجد کےاحاطے میں شرمساری، غصَے اور سبکی کا سبب بنا ہو ، وہ نیکی تو ہونہیں سکتا، اور اگر موسیقی کی یہ تال میل، سر سنگیت مسجد کی چاردیواری میں غیر معتبر ہیں تو ، باہر کیسے معتبر ہوگئے ۔۔۔ نیکی اور گناہ کی شدت پر مقامات اور مواقع اثر کرتے ہوں گے، مگر ان کی نوعیت کو بدل دیں ، جائز کو ناجائز کر دیں ، ایسا ممکن نہیں۔۔۔،، سادھی سی بات سمجھ آئی کہ اگر ساز و آواز درست ہے، تو پھر خدا کے گھر میں بھی بجا ہے، اور اگر خدا کے گھر میں سکون ڈھونڈنے والی روحوں کے چہرے اسے سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں تو ، پھر یہ گاوں کی پرانی حویلی میں بھی غلط ہیں، بوڑھے نانا دادا کی مجلس میں بھی مکروہ ہیں اور انگیٹھی کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہر اس فرد کے لئے غلط۔۔ جس کے بزرگ اسے ڈانٹ دیتے ہیں۔۔۔۔اور یہی حال ہمارے اندر اترنے والی ایسی بے شمار اور برائیوں کا ہے جنہیں دیکھ کر ہمارے بزرگ طیش میں آجاتے ہیں، اور ہم عیش کو جی سے لگائے زہر کا گھونٹ پئے آگے چل دیتے ہیں ، جہاں سات سال بعد اس زہر کا اثر رنگ دکھانا شروع ہوجاتا ہے، مگر ہم لاچار کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ بس کسی سلگتی ہوئی انگیٹھی کے کنارے بیٹھ کر ڈانٹ سکتے ہیں۔۔۔۔کھانس سکتے ہیں۔۔۔۔۔بس


Monday, December 24, 2012

Des in Perdes: A Report on Pakistan Culture Day in South Korea






Pakistan Cultural Expedition : Rohi Celebration

A Report By Muhammad Abdul Basit

Pakistan Community in Korea


December 22nd Saturday afternoon was a delightful and prestigious hours of daylight in South Korea for Pakistani Community, as we were given an exclusive opportunity to exhibit our cultural diversity to the international community at Korea, especially those who were resident in Seoul and its nearby. Seoul Metro-Politian Government, the main financial supporter of the event contributed a lot for the beautified  execution of Pakistan Cultural Expedition event and played a highly appreciate-able role in making this accomplishment  possible. Mr. Im Kyoung Ho from Seoul Metro-Politian Government did a splendid job through his unique motivation and personal involvement.




Being the sons of soil, Pakistani community volunteers made this event a benchmark for very minorly populated Pakistani Nationals in South Korea and designed a beautiful thought inside the minds of international community people.  Miss Julia who is a Kazakhstan National said that evening that for hwe it was a nice and informative session  to know about the rich and versatile culture of Pakistan, which she evaluated to be far away from presently depicted picture in media these days. She also said that, " I am glad that Pakistani community finally got a chance to show themselves and introduce its culture. Performances were energetic, emotional and family like. I liked what it meant for students. Their faces were shining. Dances reminded me how we celebrate our special holidays in Kazakhstan."




The Event started with the recitation of Holy Quran, as Pakistan is an Islamic country and is customized to start official and non official ceremony in such fashion. Soon After Miss Saera Shabbir with her acquiescent words sung a few lines in the praise of Holy Prophet Muhammad (Peace be upon Him). The Secretary staging the performances shortly introduced the Pakistani Culture in context of the event organization and  invited the Chief Organizer Mr. Shahzad from Hanyang University for his Welcome Speech.  Thanking to the Seoul Metro-Politian Government,  Mr. Shahzad also welcomed the attendees of the session and announced the formal start of the event. He said that It was a remarkable chance for him and his team to artistify the hidden charm of their homeland and bring the international community together with a message of peace and love. He also showed all his respect to the Seoul Metro-Politian Government for scheming such policy and inviting cultural excursions.





In the formal Session, four provincial dance performances enlightened the multi-color dressing and  instrumental spring of music. In-between various video presentations were displayed using projection tools to let the audience know about the land features and seasonal beauty of Pakistan. Also, the awards and honors of Pakistan were compiled in videos for the participants, who were really overjoyed to feel the beauty and hidden angelic face our heavenly land. More than a hundred Participants belonging to different countries including Bangladesh, India, Kazakhstan, China, Vietnam, Iran and most obviously from Pakistan and Korea not only waved their hands with the melody of these performances but their hearts too. Organizationally Transnational Asian Women, Pak-Korea and PSA South Korea also attended this cultural expedition prgram. Despite of the limited human resources and close-hall type of event, many communities were attracted to the occasion.





The formal session of day was concluded here, and people were requested to visit the Pakistan Cultural stalls, those were structured within the hall selected for the cultural day. Pakistani Dresses , Jewelry, Traditional shoes, ornamental objects, antiques, paintings, handicrafts, regional handmade fabric items like Sindhi Topi, Chadar and others were displayed for the visitors. Also, there was a HINA stall free for ladies to have hina (Tattoo-similar) designs on their hands, where foreigners took more than interest. There were many posters and banners displayed showing the various aspects and information of Pakistan as a unique civilization.



After the formal Session and stall visit, the participants were reseated to share the informal session being full of fun, amusement and interactivity. Many questions regarding Pakistan Culture and presentations were asked by Mr. Hasan Hafeez, who was hosting this session and the participants were gifted for their tasks and right answers. Lastly the session was concluded with the formal remarks from Organizers and participants were offered Desi (Pakistan) traditional Food, that was highly tasted and spicily enjoyed as last activity of the day.


Although the cultural day ended here, but the immortal feeling of love, respect and mutual understanding originated from the sun setting that day among variant nationals. Precisely, it was a limited episode of bilateral effort made by Seoul Metro-Politian and Pakistan Community, but a never ending motivation to bring the hearts and feels together for the sake of local and global objectives of humanitarianism. Long Live Pakistan, Long Live Korea



Organizers from Pakistani community, mainly comprising of Pakistani Students in Korea voluntarily  came forward and portrayed a long lasting image of their cultural and national veracity. Pakistan is a country of 180 Million people having multi-linguistic, sundry regional traditions and a variety of cultural substances including art, dances, songs, sports and foods. Pakistan is one of the few countries having all four seasons with their epical beauty and all possible geographical and climatic themes over its strategic piece of land. In this event, it was attempted to present as detailed picture of Pakistan as possible, pixling the every bit of this God-Gifted soil.

No culture is ever complete without musical essence of poetry and songs. Pakistani culture like others has a long series of musical trends branched in regional, spiritual and folk streams of love. Covering them all, Sufi Song , Musical song from Pakistani talent and a Pakistani Urdu Song was presented to feel the heart beat of a spiritful nation. Also some poetry was shared with the audience to touch the literary limits of socio-cultural Pakistan. Maintaining the decorum of Multinational gathering, an English  Song was also sung by a participant, that was highly enjoyed by the Non-Pakistani attendees as well as Pakistani community present.





The other awe-inspiring  feature of this afternoon was B-Boys Dance group performances, who additionally raised the level of fun and interest higher that afternoon. They performed two dances separated by an interval of half an hour and involved all the hearts leaving behind the cultural contrasts of various nationals attending the event. Also A solo-performer Mr. Ali Ahmed from Pakistan Student Community in Korea hold the stage for few minutes with his funny and multi-linguistic skill of pleasurable joy. 




After the ending of Pakistan Cultural Expedition Event, Mr. 최한락 said that Food was good, Performance was very lively and energetic. One of the visiting participants was overjoyed with the event day and she shared her feeling in these words, "I would like to go again, If I get a chance." Her name is 류건욱 and she is a Korean.







Note: This report is released for submission to Seoul Metro-Politian Government , also for  international electronic media publicity and press-media in Pakistan. 

Wednesday, December 5, 2012

آجُومانی


آجُو مانی 

" کل دوپہر جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ کھانا کھا کر کچن سے نکلا ہی تھا ، کہ ایک کورین آجومانی [ معمر 
عورت] سے واسطہ پڑ گیا۔۔۔ برف اب بھی پورے زوروشور سے پڑ رہی تھی اور ہوا پہاڑوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس حملہ آور ہو رہی تھی۔۔ ہم ہاسٹل سے چھتری لینے جا رہے تھے۔۔میں اور مرا دوست ، جس کی زندگی کی پہلی برفباری تھی، موسم سے خاصے لطف اندوز ہو رہے تھے، اور تصاویر بنانے میں مگن تھے، کہ اس آجومانی کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔
" نل شی گا 좋아 چھُوا یو؟"


"Thanks to God is the best delight."
جس کا مطلب ہے  موسم تمہیں اچھا لگ رہا ہے؟
مگر میں سمجھاکہ وہ کہہ رہی ہے۔۔۔۔
" نل شی کا چھُو  (추위) آیو۔۔؟" جس کا مطلب ہے کہ کیا موسم بہت سرد ہے؟ "
ملتان کا باسی منفی دس پر کیا کہہ سکتا ہے، جھٹ سے کہہ دیا۔۔۔
" نے۔۔ آجو چھُو آیو۔۔۔۔۔۔ ہاں بہت ٹھنڈا ہے۔۔۔
کدال سے راستہ بناتی آجومانی سمجھی کہ میں کہہ رہا ہوں بہت اچھا ہے۔۔اور اس کے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی۔۔۔اور اس نے منہ بسورتے ہوا کہا۔۔۔۔"آجومانی شیرو ہئیو ، مانی ہمدرائیو [ مجھے بہت برا لگ رہا ہے، بہت تھک گئی ہوں کام کرتے کرتے"۔۔۔۔
"When we sit inside warm, there can be someone dying cold" [A.B. Saim]
میں سمجھ گیا کہ وہ ٹھنڈے کا نہیں۔ اچھے یا برے کا پوچھ رہی تھی۔۔ مگر ساتھ ہی میں ایک اور حقیقت بھی سمجھ آئی زندگی کی۔۔۔۔ وہ یہ کہ ظاہرا یا عموما جو موسم یا مظہر خوشی کا استعارہ بنا لیا جاتا ہے، وہ سب کے لئے ویسا نہیں ہوتا۔۔۔۔ برفیلے پہاڑوں پر لوگ ہنی مون منانے جاتے ہیں، جب کی سردی سے تنگ وہاں کے باسی دیہاڑیاں لگانے میدانی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔۔ بارش میں منچلے سڑکوں پر نکل آتے ہیں، جبکہ ٹھیلوں والے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے زیرِتعمیر پلوں کے نیچے جا کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔۔ کسان ہاتھ اٹھا اٹھا کر بارش مانگتا ہے اور مزدور دیہاڑی کے خوف سے بادلوں کو کوستا رہتا ہے۔۔۔۔ پختہ عمارتیں موسموں میں اپنے رنگوں کو نہلاتی ہیں ، جبکہ کچے مکان اپنی بنیادوں کے لرزنے سے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہی زندگی کی حقیقت ہے۔۔۔۔ 
مظاہرِ فطرت اپنے طے کردہ دائروں میں متحرک رہتے ہیں،  اور انسان اپنی ذات اور صفات کے زیرِاثر ان سے محظوظ یا خائف رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی دن کے اجالوں سے زندگی کا سورج تراشتا ہے اور کوئی رات کے اندھیروں میں دیپ جلا کر روح کا چاند روشن کرتا ہے۔۔۔کسی کو بہاروں میں چہچہاتے پرندے سکون دیتے ہیں اور کسی کو خزاں رسیدہ پتوں میں زندگی کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے۔۔۔ کہیں برف کی پھسلتی ہوئی سانسوں میں خوشی اپنا رنگ جماتی ہے اور کہیں سورج کی ایک کرن سمیٹنے کے لئے آنکھیں سجدہ ریز ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔


خدا نے جہاں مظاہرِ فطرت کو کثیرالنوع بنایا ، وہیں انسان، حیوان اور چرند و پرند
 کو طرح طرح کی خوش طبعی نواز دی۔۔۔۔ پرندوں کی مثال لے لیجئے ، تلور، لالیاں، بٹیر  پاکستانی پنجاب کے میدانی علاقوں کا وہ حسن ہیں جو غول در غول گرمیوں کا تہوار منانے نکل آتے ہیں۔ جبکہ مرغابیاں انہیں علاقوں میں موسمِ سرما سے پہلے نظر بھی نہیں آتیں۔۔۔ہم سمجھتے ہیں ، کہ سردی کا عشق ہے ان کی ذات میں ، جبکہ وہ بے چاریاں تو سربیا کی 
سردی سے تنگ آ کر یہاں پناہ لئے ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔
"Drive your life happily but not crazily. "    [[A.B. Saim]]

انسان اور حیوان میں بس یہِی فرق ہے۔۔۔۔محسوسات کا فرق۔۔۔ انسان اس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں ، جب تک اس کا علم اور عمل موسموں اور لمحاتی کیفیتوں سے آذاد ہو کر حقیقت کے رازوں سے آشنائی نہیں اختیار کر لیتا۔۔۔۔ عیش میں یادِ خدا اور طیش میں خوفِ خدا اس کی بڑی شرطیں ہیں۔۔۔۔۔ جو خدا کو نہیں مانتے وہ بھی عیش اور طیش میں خدائی اور اس کے اندر کے موسموں کا ادراک کر پائیں تو انسان کی تعریف پر صادق ہیں۔۔ وگرنہ خدا پر ایمان بھی ایک جزو ہے اس کے رازوں کا، کُل نہیں۔۔۔۔۔۔
انسان میں یہ سلیقہ ہونا چاہیئے کہ وہ برف پڑتی دیکھ کر چڑیوں کے گھونسلے کا بھی سوچے اور بارش کے بادل چڑھتے دیکھ کر اسے بھوکے مزدور کا خیال گھیرے۔۔۔۔گرمیاں آنے سے قبل اسے اے سی کی گیس ری فلنگ کا خیال آئے مگر اس سے پہلے آفس کے باہر بیٹھے ہوئے چوکیدار کا خیال آنا چاہیئے جس کا سر دھوپ سے بھی زیادہ سفید ہو چکا ہو۔۔۔۔سردیوں میں گرم گرم جلیبیوں کا سن کر منہ میں پانی آنا چاہیئے، مگر جلیبیوں والے کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں بھی سردی کے معنی تلاش کرنے چاہیئں۔۔۔ 
بارش میں کوٹھی کے پینٹ کے متاثر ہونے کا خیال بھی درست ہے، مگر سرونٹ کوارٹر کی سالوں پرانی چھت کے ٹپکنے کا اندیشہ بھی تو ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔ عید پر بچوں کو نئے کپڑے، کھلونے اور غبارے لے کر دینے کی تو کیا ہی بات ہے، مگر اولڈ ہوم میں پڑے بوڑھے لاوارثوں کو عید ملنے بھی تو جانا چاہیئے، ۱۴ اگست کو سائلنسر اتار کر سڑکوں پر نکل بھی آئیں تو، کم سے کم اسپتال کے پاس تو ریس نہیں دینی چاہیئے، ۔۔۔۔۔۔۔۔
بس یہی انسانیت ہے ، کہ اپنی خوشیوں میں دوسروں کے غم کا احساس رہ جائے۔۔ اپنی آسانیوں میں دوسروں کی تکالیف کا کم سے کم خیال ہی آجائے تو ہم انسان کہلانے کے حق دار ہیں۔۔۔۔۔ ورنہ برسات کی شاموں میں مینڈک بھی ٹرٹراتے ہیں اور بارش کے بعد لاکھوں ٹِڈیاں بھی خوشی میں لہراتی پھرتی ہیں۔۔۔۔مگر وہ اشرف المخوقات نہیں کہلاتے، حیوان ہی رہتے ہیں ۔۔۔۔"

[[ مضمون از برف برف چہرے: عبدالباسط صائم]]