Thursday, December 29, 2011

A story of Melting Ice

جلدی
 (پردیس اور دیس کے درمیان ایک دیوار )

Abdul Basit Saim
گزشتہ کتنے ہی دنوں سے برف ہین یینگ یونیورسٹی کے سینے سے لگ کر اندر ھی اندر گھل رھی تھی۔ اؑج صبح جب میں اپنی لیب جانے لگا تو احساس ھوا کہ کوریا میں رونے کا رواج بھی ھے۔ پیڑوں کی گود سے برف قطرہ قطرہ پگھل کر سورج کی طرف دیکھ رھی تھی۔ میں نے بھی آسمان کی طرف دیکھا۔نیلا صاف ستھرا آسمان ویسا تھا جیسا میں اپنے گھر کی چھت پر چھوڑ کر آیا تھا۔ سورج کی آ نکھوں میں بھی وہی کرنیں تھیں جو میرے گھر کی بیلوں کی ساتھ دن بھر آنکھ مچولی کھیلتی رھتی تھیں۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ ھوا کی ٹھنڈے تماچے میرے قدموں کی رفتار کو دھکیل رھے تھے۔ پہلی بار میں گھر بھی نہیں جا رھا تھا اور جلدی میں بھی تھا۔ مجھے خود پر رونے کی حد تک ھنسی آرھی تھی۔مگر نہ میں ھنسا اور نہ رویا ہی۔۔۔ 

دیار غیر میں ہر شخص اسی جلدی کے ھاتھوں کا شکار نظر آتا ھے۔ یونہی رونے اور ھنسنے کے بیچ کی کسی کیفیت میں۔۔۔جہاں اس کے اندر کی برف پگھلتی تو ھے مگر قطرہ قطرہ ھو کر۔۔مجھے یاد ھےکہ ہم دس کے قریب لوگ جوا علٰی تعلیم کی خاطر ایک ھی فلایٹ سے جنوبی کوریا آرہے تھے،اتنی ھی جلدی میں تھے جتنی جلدی میں یہاں سے جانے والے اپنا سامان باندھ رہے ھیں۔ ھم میں سے کچھ لوگ دم رخصت پاکستان کے لیے جو زبان استعمال کر رھے تھے وھی مغلظات کوریا سے کوچ کرنے والوں کی گفتگو سے چھلک رھی تھیں۔وہ ایک بار پھر جلدی میں ہیں جبکہ انھیں گھر بھی نہیں جانا۔۔۔۔
یہ جلدی ہی در اصل پردیس کی وہ پہلی بیماری ہے جو دیس چھوڑنے سے پہلے ھی آدمی کو آن دبوچتی ھے اور میں جانتا ھوں کہ یہ بیماری آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک وہ زندہ یا مردہ دیس واپس نہ لوٹ جاؑے۔

ھمارے لوگوں کو بہت جلدی ھے۔گاڑی کی مثال لے لیں ،پہلے گاڑی سیکھنے کی جلدی۔ سیکھ لیں تو بھگانے کی جلدی۔ اور اسی جلدی میں زندگی ھارنے میں بھی جلدی کر جاتے ھیں ۔ بات یہاں تک کی ھوتی تو خیر تھی مگر ھمیں تو اب اپنے رسوم، عقیدے اورمذھب و معاشرت سے نکلنے کی بھی جلدی ھے۔۔۔ ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ اپنے مذھب کی رسوایؑ اور ملک کی زبوں حالی کا احساس کروٹ کروٹ سوچ اور فکر کی گہرایوں کو جنم دیتا۔ مٹی سے کونپل ، کونپل سے پھول اور پھول سے خوشبوتراشنے کا سلیقہ سکھلاتا۔ لیکن ھم نے الٹا ھی سبق لیا۔ درجہ بدرجہ منزل طے کرنے کو زوال کا سبق جانا اور ذلت کی ایک نٓی نسل ایجاد کر ڈالی۔۔۔وہ یہی جلدی ہے،جس نے ھمیں گھر سے تو نکلوایا ھی گھاٹ کا بھی نہیں رھنے دیا۔

کجا یہ کہ ھم اینٹ در اینٹ گھر کی گرتی ھویؑ دیواروں کو استوار کرتے،مرجھاتے پھولوں کے ماتھے پرآنسو آنسو شبنم چھڑکتے۔ ھوا اور صیاد کی آنکھوں کا نشانہ باندھتے، ہم نے زبان کو گھوڑے پر بٹھا دیا اور لگے دھرتی کے پاک چہرے پر کیچڑ اچھالنے۔۔ "پاکستان تو بنا ھی ٹوٹنے کے لیے ھے" ۔ پاکستان میں کیا رکھا ھے" پاکستان جا کر کیا کریں گے،اسلام نہیں انسانیت مذھب ھے میرا (جو میرے نزدیک الگ ھو ہی نہیں سکتے)،مسلمان بس بیک ورڈ اور متعصب لوگوں کا دوسرا نام ھے" اور جانے کیا کیا ان جلدی کے مریضوں کے منہ سے نھیں نکلتا۔ اور یہی دراصل اس مرض کی نشانی بھی ھے۔ دوسری نشانی یہ ھے کہ یہ لوگ اپنے ملک میں تیس ھزار پر پڑھانا اپنی صلاحیتوں کے ساتھ زیادتی سمجھتے ھیں جبکہ پردیس میں لاکھ روپے پر شراب خانوں پر کام کرنے میں بھی انہیں کویؑ کجی نظر نہیں آتی۔جلدی کے ان مریضوں کو ملک سے اتنا ھی لگاو ھے جتنا نیوز کاسٹر کوخبر سناتے سمے کسی مقتول کے رشتہ داروں سےھوسکتا ھے۔۔۔۔ مگر ان مریضوں کی ان جلد بازیوں سے کتنے لوگ، کتنی امیدیں، کتنے خواب قدموں تلے روندے جاتے ھیں ، انھیں کیا خبر ہو۔

آج پاکستان اور اسلام، دونوں اسی کرب کے عالم میں سے گزر رھے ھیں،جہاں لوگوں کو اپنی ذات اور اپنے حالات میں ھی عروج و زوال کے زمانے نظر آنے لگے ھیں۔۔گھر میں لگنے والی آگ کو بجھانے کی بجاےانھیں بے گھری میں چین ملتا ھے۔ ان سے جو دیواریں کھڑی نہیں ھوتیں ،یہ انہیں گالیاں بکنے لگتے ھیں۔ان لوگوں کو بھول جاتا کہ آینے میں خواہ کتنی ھی بد صورت تصویر کیوں نہ ھو، آیینہ پر پتھر مارنے سے تین کام ھوتے ھیں ۔ ایک یہ کہ آیینہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ برایؑ کا عکس چھپ جاتا ھے۔اور تیسرا یہ کہ اچھایؑ کی شبیہھ دیکھنے کی صلاحیت جاتی رہتی ھے


مری اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہےکہ ٖخدارا اپنے مذھب اور ملک کی شناخت بنو،گرتی ھوی دیواروں کو سہارا دو،اپنی مضبوطی اپنی صلاحیتوں کو آفاقی بناو،ورنہ یہ خود کو بچانے کی تہذیب آدمی کو نیست، لشکروں کو مفتوح اور قوموں کو نابود کر دیتی ہے۔ اور اس نیست و نابودیت کا ایک بڑا سبب یہی جلدی کی بیماری ہی جس کی گرفت میں بے روزگار تو آھی جاتے تھے ، اب پڑھے لکھے افراد بھی مستقبل،امن،اور ترقی کے نام پر ان قوم کش اور مذھب فراموش جرثوموں کی زد میں آ رہے ھیں۔

 ھمارے گھر کو بہت ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو بدن سے لاکھ غربت مارے ھوں، دکھ کی داستان جن کے ماتھے پر داغ بن کر جگمگا رہی ھو اور سینے سے حسرتوں کا پسینہ بہہ رہا ہو۔۔مگر پھر بھی ھاتھوں میں گرتی ھویؑ دیوار کی
تعمیر کا جذبہ ھو۔۔۔یہ پردیس کی سردیوں میں بھی دیس کا سورج ڈھونڈ لیتے ھیں ۔ قطرہ قطرہ پگھلتی ھوی برف اور سرد ھوا کے تپھیڑوں میں بھی یہ لوگ دھیمی رفتار چلتے ہیں۔یہ لوگ بہت کم پھسلتے ہیں،کیونکہ انہیں سنگ مرمر سے ذیادہ اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ ھوتا ھے۔۔ ایسے لوگوں کو بس جلدی گھر لوٹنے کی ھوتی ھے ۔۔۔۔

Monday, December 5, 2011

Autumn inside is no less than Spring.

Autumn inside is no less than Spring.
Engr. M.A. Basit (SAIM)

The leaves are saying good bye to the old friendly branches which hugged them for months or so.  Cold winds have invaded the season and are capturing the cities of green state. The birds with sad hearts have restricted their chirping voices to play background music for the drama of winter. It is the time, when I am always sad.


The autumn always reminds me the time, the persons and the places I have lost in the race of life. It is a fact that what we have left behind  is less important than what we are being blessed to move ahead. But this is what our mind believes in but not the heart. And I believe that whenever we have an un-intended look on the autumn face, the tides of sadness flowing through the sea inside our souls are indicative of the deepness in our relation and attachment to the the people sunk down in our past. I am not a person who loves to stay dissolved in past and not to run for newer goals and objectives in life. Equally, I believe that a corner inside your heart , decorated with old broken toys of friendships, having half-painted postures of relations on the walls and some dusty pictures of memories on the floor is more than a coffee shop and a juice corner. You can meet your old friends, once you enter the this house inside your heart.  
Inside Heart

Most of the people believe that it is not a healthy activity. I wonder if they ever tried to make such a house for their friends and beloved ones inside their heart. Time never remains same. We have to be deprived of every relation around. We have to make newer and newer patterns of life accompanied by cosmetically developing relations. But it always necessitates to build a small house  inside your heart for those who are gone and to let them to make you sad when you peep inside your heart to see them no more with you. This small corner has the ability to share the place equally for thousands and thousands of people which may include your parents, grand parents, your school fellows, your friends and even the foes too. 

Every autumn leave falling down can remind you any of the person inside and can make you to peep inside your heart again and again. Staying alone in a cluster of thousands is one of the symptoms arguing  scientifically that you have constructed a corner inside your heart where you have placed many of the broken relations and the lost friendships like your childhood toys and you still love them very much. This art of recalling the friends and relations lost not only enables you to respect the newer relations and to resist the time swings which try to break your newer relations afterwards. The last but not the least is the fact that it keeps the faces lost alive. And  some day, some time, when you meet an old friend, you have spring season restored and the the small corner inside you is full of joy. Despite of so much darkness inside, you have a candle illuminated which guides you to have much more light than your outside can have. So, always love the relations you ever had, as it is the only way to bring them back or to pay them a tribute for which they deserved and to keep the existing relations better and spring-full. 

******************

Sunday, December 4, 2011

In Love & War

                   People love to say, “Every thing is fair in love and war.”
Light in Sand
                           By Engr. M.A. Basit (SAIM)

I always wondered about the person who first created the idea of resembling love with war. Very possibly, it was a thought to even out the status of the war to that of love or vice versa. But who knows.

There is a possibility that the man making the above statement was a lover trying to find out some justification for the destruction of all the socio-problematic barriers in his way to make two hearts one. Equally, it can be a speech content of an emperor or a combatant whose intention would be to win the sacredness for the bloodshed that his power had caused or premeditated to cause.

Actually, Love is the art of winning the souls through unmatchable etiquettes and making the A to Z’s of the universe a companion of yours for the good and bad times  forever. Love is  the light which once struck against the heart of anyone creates the prismatic scent of life. Love is the light which has thousands of rays those are absorbed, transmitted and reflected through the varying psycho-natural heart-planes of human beings.

The scientific phenomenon of Incidence of light and materials response, in my view, is very much precise technique to understand the variety of human behaviors against love and as well as to estimate the quality of the love that a person claims.  I am a Materials Engineer and I know that the human beings, in a sense, are natural systems based on Bio-materials having a certain absorption co-efficient, reflective index and angle of refraction. Love light entering the heart of someone is a natural phenomenon. Sooner or later, either once or many a times, it happens.  
Peoples some time welcome the love rays incoming and absorb them efficiently in the core of their heart and get energized for some time The change of time makes the love rays to be bent  and to to follow the path as set by these peoples.The love light don't like to reside in such hearts for a longer time and is transmitted thereby. Most often these people are found to be saying,"Everything is fair in love and war." Peoples some time are very flat and coated hard to accept the message of love and they push all the energy down from the door stairs of their heart.



There is one more type of response against the love light. It is when people accept the entrance of the love inside their body and entrap it forever. These people are “Black Body” people. They absorb and don’t reflect; don't refract and don't transmit. These people have no ability to transmit the love light, once absorbed. You can find these people around you, they will have pretty sad faces with energetic eyes directing towards the light of their heart. These people normally have dull silent appearance, but deep inside they have a glow of spiritual flame which is visible only if you have the capability to see inside the dark room.
These people have the tendency to share the glow with the people having more than threshold level of the love light absorption.

Once such a Black Body person said to me, “No my friend! Everything is not fair in war and love. Rather, everything should be fair in Love and War.” 

*************************