جلدی
(پردیس اور دیس کے درمیان ایک دیوار )
Abdul Basit Saim |
گزشتہ کتنے ہی دنوں سے برف ہین یینگ یونیورسٹی کے سینے سے لگ کر اندر ھی اندر گھل رھی تھی۔ اؑج صبح جب میں اپنی لیب جانے لگا تو احساس ھوا کہ کوریا میں رونے کا رواج بھی ھے۔ پیڑوں کی گود سے برف قطرہ قطرہ پگھل کر سورج کی طرف دیکھ رھی تھی۔ میں نے بھی آسمان کی طرف دیکھا۔نیلا صاف ستھرا آسمان ویسا تھا جیسا میں اپنے گھر کی چھت پر چھوڑ کر آیا تھا۔ سورج کی آ نکھوں میں بھی وہی کرنیں تھیں جو میرے گھر کی بیلوں کی ساتھ دن بھر آنکھ مچولی کھیلتی رھتی تھیں۔ فرق تھا تو صرف اتنا کہ ھوا کی ٹھنڈے تماچے میرے قدموں کی رفتار کو دھکیل رھے تھے۔ پہلی بار میں گھر بھی نہیں جا رھا تھا اور جلدی میں بھی تھا۔ مجھے خود پر رونے کی حد تک ھنسی آرھی تھی۔مگر نہ میں ھنسا اور نہ رویا ہی۔۔۔
دیار غیر میں ہر شخص اسی جلدی کے ھاتھوں کا شکار نظر آتا ھے۔ یونہی رونے اور ھنسنے کے بیچ کی کسی کیفیت میں۔۔۔جہاں اس کے اندر کی برف پگھلتی تو ھے مگر قطرہ قطرہ ھو کر۔۔مجھے یاد ھےکہ ہم دس کے قریب لوگ جوا علٰی تعلیم کی خاطر ایک ھی فلایٹ سے جنوبی کوریا آرہے تھے،اتنی ھی جلدی میں تھے جتنی جلدی میں یہاں سے جانے والے اپنا سامان باندھ رہے ھیں۔ ھم میں سے کچھ لوگ دم رخصت پاکستان کے لیے جو زبان استعمال کر رھے تھے وھی مغلظات کوریا سے کوچ کرنے والوں کی گفتگو سے چھلک رھی تھیں۔وہ ایک بار پھر جلدی میں ہیں جبکہ انھیں گھر بھی نہیں جانا۔۔۔۔
یہ جلدی ہی در اصل پردیس کی وہ پہلی بیماری ہے جو دیس چھوڑنے سے پہلے ھی آدمی کو آن دبوچتی ھے اور میں جانتا ھوں کہ یہ بیماری آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑتی جب تک وہ زندہ یا مردہ دیس واپس نہ لوٹ جاؑے۔
ھمارے لوگوں کو بہت جلدی ھے۔گاڑی کی مثال لے لیں ،پہلے گاڑی سیکھنے کی جلدی۔ سیکھ لیں تو بھگانے کی جلدی۔ اور اسی جلدی میں زندگی ھارنے میں بھی جلدی کر جاتے ھیں ۔ بات یہاں تک کی ھوتی تو خیر تھی مگر ھمیں تو اب اپنے رسوم، عقیدے اورمذھب و معاشرت سے نکلنے کی بھی جلدی ھے۔۔۔ ھونا تو یہ چاھیے تھا کہ اپنے مذھب کی رسوایؑ اور ملک کی زبوں حالی کا احساس کروٹ کروٹ سوچ اور فکر کی گہرایوں کو جنم دیتا۔ مٹی سے کونپل ، کونپل سے پھول اور پھول سے خوشبوتراشنے کا سلیقہ سکھلاتا۔ لیکن ھم نے الٹا ھی سبق لیا۔ درجہ بدرجہ منزل طے کرنے کو زوال کا سبق جانا اور ذلت کی ایک نٓی نسل ایجاد کر ڈالی۔۔۔وہ یہی جلدی ہے،جس نے ھمیں گھر سے تو نکلوایا ھی گھاٹ کا بھی نہیں رھنے دیا۔
کجا یہ کہ ھم اینٹ در اینٹ گھر کی گرتی ھویؑ دیواروں کو استوار کرتے،مرجھاتے پھولوں کے ماتھے پرآنسو آنسو شبنم چھڑکتے۔ ھوا اور صیاد کی آنکھوں کا نشانہ باندھتے، ہم نے زبان کو گھوڑے پر بٹھا دیا اور لگے دھرتی کے پاک چہرے پر کیچڑ اچھالنے۔۔ "پاکستان تو بنا ھی ٹوٹنے کے لیے ھے" ۔ پاکستان میں کیا رکھا ھے" پاکستان جا کر کیا کریں گے،اسلام نہیں انسانیت مذھب ھے میرا (جو میرے نزدیک الگ ھو ہی نہیں سکتے)،مسلمان بس بیک ورڈ اور متعصب لوگوں کا دوسرا نام ھے" اور جانے کیا کیا ان جلدی کے مریضوں کے منہ سے نھیں نکلتا۔ اور یہی دراصل اس مرض کی نشانی بھی ھے۔ دوسری نشانی یہ ھے کہ یہ لوگ اپنے ملک میں تیس ھزار پر پڑھانا اپنی صلاحیتوں کے ساتھ زیادتی سمجھتے ھیں جبکہ پردیس میں لاکھ روپے پر شراب خانوں پر کام کرنے میں بھی انہیں کویؑ کجی نظر نہیں آتی۔جلدی کے ان مریضوں کو ملک سے اتنا ھی لگاو ھے جتنا نیوز کاسٹر کوخبر سناتے سمے کسی مقتول کے رشتہ داروں سےھوسکتا ھے۔۔۔۔ مگر ان مریضوں کی ان جلد بازیوں سے کتنے لوگ، کتنی امیدیں، کتنے خواب قدموں تلے روندے جاتے ھیں ، انھیں کیا خبر ہو۔
آج پاکستان اور اسلام، دونوں اسی کرب کے عالم میں سے گزر رھے ھیں،جہاں لوگوں کو اپنی ذات اور اپنے حالات میں ھی عروج و زوال کے زمانے نظر آنے لگے ھیں۔۔گھر میں لگنے والی آگ کو بجھانے کی بجاےانھیں بے گھری میں چین ملتا ھے۔ ان سے جو دیواریں کھڑی نہیں ھوتیں ،یہ انہیں گالیاں بکنے لگتے ھیں۔ان لوگوں کو بھول جاتا کہ آینے میں خواہ کتنی ھی بد صورت تصویر کیوں نہ ھو، آیینہ پر پتھر مارنے سے تین کام ھوتے ھیں ۔ ایک یہ کہ آیینہ ٹوٹ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ برایؑ کا عکس چھپ جاتا ھے۔اور تیسرا یہ کہ اچھایؑ کی شبیہھ دیکھنے کی صلاحیت جاتی رہتی ھے
مری اس تحریر کا مقصد بھی یہی ہےکہ ٖخدارا اپنے مذھب اور ملک کی شناخت بنو،گرتی ھوی دیواروں کو سہارا دو،اپنی مضبوطی اپنی صلاحیتوں کو آفاقی بناو،ورنہ یہ خود کو بچانے کی تہذیب آدمی کو نیست، لشکروں کو مفتوح اور قوموں کو نابود کر دیتی ہے۔ اور اس نیست و نابودیت کا ایک بڑا سبب یہی جلدی کی بیماری ہی جس کی گرفت میں بے روزگار تو آھی جاتے تھے ، اب پڑھے لکھے افراد بھی مستقبل،امن،اور ترقی کے نام پر ان قوم کش اور مذھب فراموش جرثوموں کی زد میں آ رہے ھیں۔
ھمارے گھر کو بہت ضرورت ہے ایسے لوگوں کی جو بدن سے لاکھ غربت مارے ھوں، دکھ کی داستان جن کے ماتھے پر داغ بن کر جگمگا رہی ھو اور سینے سے حسرتوں کا پسینہ بہہ رہا ہو۔۔مگر پھر بھی ھاتھوں میں گرتی ھویؑ دیوار کی
تعمیر کا جذبہ ھو۔۔۔یہ پردیس کی سردیوں میں بھی دیس کا سورج ڈھونڈ لیتے ھیں ۔ قطرہ قطرہ پگھلتی ھوی برف اور سرد ھوا کے تپھیڑوں میں بھی یہ لوگ دھیمی رفتار چلتے ہیں۔یہ لوگ بہت کم پھسلتے ہیں،کیونکہ انہیں سنگ مرمر سے ذیادہ اپنی مٹی پر چلنے کا سلیقہ ھوتا ھے۔۔ ایسے لوگوں کو بس جلدی گھر لوٹنے کی ھوتی ھے ۔۔۔۔